پاکستانی سیاستدان مریم نواز نے مزاحمت پہلے مفاہمت بعد میں کی بحث چھڑ رکھی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کے سیاستدان محسوس کر رہے ہیں کہ اب پاکستان میں آج مزاحمت کاری کی شدید ضرورت ہے۔جس کو اختیار کرنا لازم ہوچکا ہے۔جو ریاست کے اندر ریاست یا ریاست کے اوپر ریاست کے طاقتور اداروں سے اقتدار چھین کر عوام کے حوالے کیا جائے۔ جو برائے راست حکمران بنے رہے ہیں یا پھر سویلین حکومتوں کے خلاف سازشیں برپا کرتے چلے آرہے ہیں جس کی وجہ سے ملکی داخلہ اور خارجہ پالیسیاں ناکام ہوچکی ہیں۔سیاستدانوں کا مزاحمت کاری کا مطلب اور مقصد عوام کی حکمرانی قانون کی بالاتری۔آئین کی بالادستی، اداروں کو اپنی اپنی حدود میں رکھنا آئینی اداروں پارلیمنٹ، عدلیہ اور انتظامیہ میں مداخلت کو روکنا مقصود ملے جس کے لیے مزاحمت کاری اختیار کرنے کا عندیہ دیا جارہا ہے۔تاہم تاریخ انسانی میں مزاحمت کاری میں انقلاب فرانس انقلاب روس، انقلاب چین نے بڑے گہرے نقوش چھوڑے ہیں جن کی بدولت بادشاہوں، آمروں، جاگیرداروں اور اجارہ داروں اور ملک دشمن سرمایہ داروں سے نجات ملی ہے جن کے خلاف مزاحمتی انقلابات برپا ہوئے جس سے انسان آزادانہ اور خودمختار ہوا جس کو زبان عام میں جمہوریت، انصاف، حقوق کی بحالی کہا جاتا ہے جو کافی حد تک یورپ، امریکہ، روس اور چین میں پورے ہوچکے ہیں۔اگر فرانس انقلاب نہ آتا تو یورپ اور امریکہ کو جمہوریت کی نعمت نہ مانی۔اگر انقلاب روس نہ آتا روسی عوام کونسا اور سرمایہ داروں سے آزادی نہ ملتی۔اگر انقلاب چین نہ آتا تو چینی عوام کو جاگیرداری سے نجات نہ ملتی۔اگر فرنگیوں کے خلاف1857-1757اور دوسری جنگ آزادی نہ لڑی جاتی تو ہندوستان پھر پاکستان بعدازاں بنگلہ دیش آزادانہ ہوتا جس کو انقلاب زمانہ میں مزاحمت کاری قرار دیا گیا ہے۔جس کا مفاہمت کاری سے کوئی دور دور کا واسطہ نہیں ہے نا ہی ہونا چاہئے ہاں ہندوستان میں مزاحمت کاری کے بدلے مفاہمت کاری اختیار کی گئی ہے۔جس میں نیشنل کانگریس اور مسلم لیگ نے مزاحمت کاروں کی قربانیوں کے بدلے مفاہمت کاری اختیار کرکے انگریزوں سے معاہدے کئے ہیں کو آزادی لینا نہیں آزادی دینا کہا جاتا ہے کہ انگریزوں نے ہندوستانی عوام کی آزاد کیا تھا۔جس کے باوجود انگریز ایک برس1948تک ہندوستان اور1956تک نو سال تک پاکستان پر بطور گورنر جنرل حکمران رہے ہیں جن کا دونوں ملکوں میں ذکر تک نہیں ہوتا ہے کہ گورنر جنرل کا عہدہ ملکہ برطانیہ کی منشا اور مرضی پر دیا جاتا رہا ہے۔چنانچہ پاکستان کے گورنر جنرلوں کے خلاف مزاحمت ہوئی تو ملک کو9سال بعد1956کا آئین ملا جس کے بعد برطانوی گورنر جنرل شپ کا خاتمہ ہوا۔جس کو صدر سکندر مرزا اور جنرل ایوب خان کے منسوخ کرکے دوبارہ لاآئین کا شکار کردیا جس کے بعد ملک شخص واحد جنرل ایوب خان کے پنجوں میں جھکڑ دیا گیا جس کے بعد غیر آئینی صدر حکمران جنرل ایوب خان کے گیارہ سالہ آمریت کیخلاف مزاحمت کاری جاری رہی جس کا خاتمہ تب ہوا جب انہوں نے اپنا اقتدار اپنے دوسرے ساتھی جنرل یحیٰی خان کے حوالے کردیا جنہوں نے اقتدار کی رسہ کشی میں ملک توڑ دیا جس کے بعد پاکستان آئین،قانون اور مشرقی پاکستان سے محروم ہوگیا۔جس میں بنگال کے عوام نے پاکستانی آمر وجابر حکمرانوں کے خلاف مزاحمت کاری اختیار کی جو بنگالی عوام کے لیے آزادی کا باعث بنی۔جب ٹوٹ پھوٹ پاکستان کے منتخب وزیراعظم زیڈ اے بھٹو کا جنرل ضیاء الحق نے تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کرلیا تو ان کے خلاف ایچ آر ڈی کی شکل میں اندرون اور بیرون ملک مزاحمت کاری تحریک چلتی رہی جو بین الاقوامی سامراجی طاقتوں کی بدولت ناکام رہی جس میں امریکی جنگ کو جہاد کے نام سے لڑا گیا جس میں مغربی طاقتوں نے جنرل ضیاء الحق کی غیر قانونی اور غیر آئینی حکومت کا ساتھ دیا جس سے پاکستان خون میں لت پت ہوگیا۔آخر کار قدرتی حادثے میں جنرل ضیاء الحق کی غیر قانونی اور غیر آئینی حکومت کا ساتھ دیں جس سے پاکستان خون میں لت پت ہوگیا۔آخر کار قدرتی حادثے میں جنرل ضیاء الحق جان بحق ہوئے تو اقتدار سویلین حکومتوں کے حوالے ہوا جو دس برس تک جاری رہا جس کے خلاف اشرافیہ کی سازشوں کا سلسلہ بھی جاری رہا کہ ایک دن پھر آیا کہ ایک اور جنرل مشرف نے منتخب نواز حکومت پر قبضہ کرلیا جو نو سال تک اقتدار پر قابض ہے جن کے خلاف عدلیہ کی برطرفی اور آئین کی معطلی کے خلاف مزاحمت کا آغاز ہوا جو ان کے اقتدار کے زوال کا باعث بن کر آج وہ جنرل دوبئی میں پناہ گزیں ہیں جنرل مشرف خود ساختہ ملک بدری کے بعد پھر دس سالہ سویلین اور زرداری اور نواز آیا جس کو پھر حسب عادت اور روایات سازشوں دھمکیوں اور دھاندلیوں سے ختم کرکے ایک پھٹو عمرانی حکومت کا قیام لایا گیا جس نے ملکی اداروں کو تباہ وبرباد کر ڈالا۔پاکستان کی معیشت کو بدحال کردیا جس میں بے روزگاری اور مہنگائی کا طوفان برپا کیا جس سے آج عوام حقیقتاً مزاحمت کاری چاہتے ہیں جس کو اپوزیشن الفاظی اور بیانی مزاحمت کاری سے کام لے رہے ہیں جبکہ عوام ملک میں انقلاب چین اور انقلاب روس چاہتے ہیں تاکہ صدیوں کے آمر اور جابربتوں کو گرا دیں جس کے لیے آج پاکستانی عوام کو کسی لینن، مائوزے، تنگ فیڈرل کاستروچاہئے جن کا تعلق سرمایہ داروں اور جاگیرداروں سے نہ ہو جو آج پاکستان میں پائے جاتے ہیں۔جو کنٹرولڈ ڈیموکریسی کے قائل ہیں کہ جب ملک کی اصلی طاقت چاہے گی تو وہ اقتدار میں آجائیں گے۔لہذا اس وقت تک نعروں اور بیانوں پر گزارہ کرتے رہو۔حالانکہ پاکستان کے عوام اپنی بدحالی اور بے کسی پر رو رہے ہیں کہ جن کے کھانے کو روٹی ڈھانپنے کوکپڑا اور سر چھپانے کو جھگی تک نہ ملے ایسے میں مزاحمت میں مفاہمت کاری نہیں انقلاب چاہئے جو پاکستانی عوام کو صدیوں کے استحصالی نظام سے نجات دلوا پائے جوکہ موجودہ سیاستدانوں سے ناممکن نظر آتا ہے۔
٭٭٭٭