مینار پاکستان کا شرمناک واقعہ

0
156
شمیم سیّد
شمیم سیّد

مینار پاکستان پر خاتون کے ساتھ ہجوم کی ہراسانی نے ہماری اخلاقی بدحالی کو عیاں کردیا ہے کہ ہمارا معاشرہ اخلاقی پستی میں کس حد تک گرگیا ہے۔ عام مشاہدہ ہے کہ کوئی خاتون جارہی ہوتی ہے تو راستے میں مرد اسے گھورنا شروع کردیتے ہیں، جن میں سے کئی تو اس وقت تک گھورتے رہتے ہیں جب تک وہ بے چاری نظروں سے اوجھل نہیں ہوجاتی۔ روزگار یا کسی بھی ضرورت کے تحت گھر سے باہر نکلنے والی خواتین کو ہمارے ان معاشرتی رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اسٹاپ پر بس کے انتظار میں کھڑی خاتون ہو تو اسے بھی کئی غلیظ نظروں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور کئی مرد تو اس کے پاس رک کر اسے لفٹ دینے کے بہانے ہراساں کرتے ہیں۔ اسی طرح کسی مرد کے ساتھ موٹرسائیکل پر پیچھے بیٹھے کوئی خاتون جارہی ہو تب بھی نوجوان اس کے دائیں بائیں قریب سے اپنی اپنی موٹرسائیکل گزار کر تنگ کرتے ہیں۔ خواتین سے سلوک صرف گھورنے تک محدود نہیں بلکہ چھیڑخانی بھی کی جاتی ہے۔ خبرناموں میں جنسی زیادتی اور دست درازی کی خبریں آئے روز کا معمول بن چکی ہیں۔دوسری جانب لاہور میں چنگ چی پر سوارخواتین کے ساتھ بیہودہ حرکات کی گئیں۔ ایک اور واقعہ میں رکشہ ڈرائیور اور ساتھی نے خاتون اور اس کی بیٹی کو مبینہ طور پر جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا۔
کسی ملک کی آبادی میں نوجوانوں کی اکثریت ہونا ایک نعمت ہے، لیکن جس طرح پاکستان وسائل سے مالا مال ہوتے ہوئے بھی ایک غریب ملک ہے، اسی طرح آبادی میں نوجوانوں کی اکثریت ہوتے ہوئے بھی یہ سرمایہ ہمیں فائدہ نہیں دے رہا اور ہمارے نوجوان معاشرے کے مفید شہری نہیں بن رہے۔ اس کی وجہ یہی اخلاقی پستی اور زبوں حالی ہے۔ حدیث ہے کہ جب تم حیا نہ کرو تو جو چاہے کرو۔ جب انسان میں شرم و حیا ختم ہوجاتی ہے تو وہ کسی کام کا نہیں رہتا بلکہ الٹا نقصان دہ بن جاتا ہے۔ اخلاقی پستی کی مثال ایک نشے کی مانند ہے جس کی لت کسی کو لگ جائے تو وہ بے کار ہوجاتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں بگاڑ یک دم نہیں ہوا بلکہ یہ برسوں سے ہمارے معاشرے پر ہونے والی غیر اخلاقی بوچھاڑ کا نتیجہ ہے، جس کے مہلک مضمرات اب سامنے آرہے ہیں۔ ایک کے بعد ایک شرم ناک واقعات سامنے آرہے ہیں۔
اور یہ کہنا غلط ہوگا کہ صرف لڑکے ہی اخلاقی خرابی کا شکار ہیں، بلکہ اس خرابی میں مرد ہو یا عورت، جنس کی کوئی قید نہیں۔ زیادہ تر لڑکے لڑکیوں کے دماغوں پر ہیرو ہیروئن بننے اور عشق و عاشقی کا بھوت سوار ہوتا ہے۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب مسلسل آپ کو ایک ہی پیغام دیا جارہا ہو۔ آپ کی فلموں، ڈراموں، انٹرنیٹ، رسائل، ڈائجسٹ، تقریباً سب میں کہانی کا ایک ہی موضوع ہوتا ہے، عشق، عاشقی، محبت۔ تو پھر اس کا لامحالہ نتیجہ یہی نکلے گا کہ لوگوں کے حواس پر مخالف جنس کو اپنی طرف راغب کرنا ہی سوار رہے گا۔ کم ہی نوجوانوں کی ترجیح تعلیم، ترقی، ملک و قوم کی خدمت ہوگی۔
جب معاشرے میں فحش، مخرب الاخلاق مواد کی بھرمار ہوگی تو یہی نتائج برآمد ہوں گے جس کی جھلک 14 اگست کے مبارک دن مینار پاکستان کے مقدس مقام پر دیکھی گئی۔ ٹک ٹاک ویڈیوز دیکھ لیجئے، نوجوانوں کی کیا مصروفیات اور مشغلے ہیں، اندازہ ہوجائے گا۔ مینار پاکستان واقعے میں بہت سے لوگ سازشی نظریات کا پرچار کررہے ہیں کہ متاثرہ لڑکی نے خود ہی اپنے پرستاروں کو سیلفی کیلئے بلاکر سستی شہرت کیلئے یہ کام کیا ہے۔اس طرح کی باتیں الٹا مظلوم کو قصوروار قرار دینے کے مترادف ہیں۔
آپ عائشہ اکرام کی کردارکشی کو چھوڑئیے۔ کیا آپ اس حقیقت سے بھی نظریں چرائیں گے کہ ملک میں بچوں سے جنسی زیادتی کے کتنے زیادہ واقعات پیش آرہے ہیں؟ کیا اس میں بھی کسی بچے کا قصور ہوتا ہے؟ اس اخلاقی پستی سے مسجد و مدرسہ تک محفوظ نہیں اور افسوس کی بات ہے کہ جنہوں نے معاشرے کو سدھارنا تھا وہ خود بگاڑ کا شکار ہوگئے۔ طالب علم سے بدفعلی کے واقعے میں گرفتار مفتی عزیز کا کیس ہمارے سامنے ہے۔ مینار پاکستان واقعہ اس بات کی غمازی ہے کہ ہمارا معاشرہ، والدین، اساتذہ، تعلیمی نظام سب کے سب اپنے بچوں کی تربیت میں ناکام ہوچکے ہیں۔
اس کا حل کیا ہے؟ اس کے دو حل ہیں۔ ایک یہ آپ اخلاق بہتر کریں اور فحاشی کے سیلاب کو روکیں۔ بے حیائی پھیلانے والے تمام راستے بند کریں۔ دوسرا قانون اور اس پر عمل درآمد یقینی بنائیں۔ معاشرے کی اخلاقی قدروں کو بہتر بنایا جائے۔ بے حیائی کے سیلاب کے آگے بند باندھا جائے اور قانون پر عمل درآمد یقینی بناکر ہراسانی کے واقعات کی روک تھام کی جاسکتی ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here