عاشقی صبر طلب اور تمنا بیتاب !!!

0
45

حج کا رکنِ اعظم تو وقوفِ عرفہ ہے لیکن اس اہم دن کی تیاری کیلئے تمام عازمین حج، آٹھ ذوالحجہ کے دن میدان عرفات سے منسلک، وادی منیٰ میں پہنچ جاتے ہیں۔ اللہ کا لاکھ شکر کہ ہمیں یہ آٹھ ذوالحجہ، جمعة المبارک کے دن کی صورت میں نصیب ہوا۔ منیٰ میں سور کہف کی تلاوت کا مزہ ہی کچھ اور تھا۔ ظہر کی بجائے نمازِ جمعہ ادا کی گئی۔ گرمی زیادہ اور خیمہ چھوٹا ہونے کی وجہ سے کچھ عازمینِ حج بے چین نظر آئے لیکن انتظامیہ کے بروقت اقدامات سے صورتحال بہتر ہوتی رہی۔
پرانے زمانے میں تو عازمین حج کی تعداد بہت زیادہ نہیں ہوتی تھی، اس لئے سب لوگ ظہر کی نماز سے پہلے پہلے مکہ سے منیٰ پہنچ کر اپنے خیمے لگانا شروع کردیتے تھے۔ اس خیمہ بستی کی عمر چونکہ پانچ دن ہی ہوتی تھی اس لئے عارضی رہائشی انتظام کافی ہو جاتا تھا۔ اب جب عازمینِ حج کی تعداد لاکھ سے بھی بڑھ جاتی ہے تو حکومت کو ٹریفک مینجمنٹ کرکے عازمین کو ٹریفک جام سے بچانا ہوتا ہے۔ اسی لئے مختلف معلمین کے تحت مختلف ممالک کے عازمینِ حج کو مکہ سے منیٰ جانے کے لئے ایک ٹائم سلاٹ الاٹ ہوتی ہے اور انکی بسوں کو اسی وقت کے اندر اپنا سفر شروع کرکے اپنے گروپ کے لوگوں کو انکے منیٰ کے کیمپ تک پہنچانا ہوتا ہے،عازمین حج کی یہ ماس موومنٹ آدھی رات سے شروع ہو جاتی ہے اور ظہر تک جاری رہتی ہے۔پرانے زمانے میں تو منیٰ کے خیموں میں تمام لوگ اپنا کھانا بھی خود بنایا کرتے تھے۔ آگ لگنے کے کئی واقعات کی وجہ سے اب ہر گروپ کے کھانے کا انتظام اجتماعی طور پر کیا جاتا ہے۔ منیٰ کی وادی چونکہ اتنی وسیع نہیں ہے اس لئے رہائش کے انتظامات بھی خاصی تنگ جگہوں میں کرنے پڑتے ہیں۔ البتہ آجکل زیادہ تر ٹینٹ ائیر کنڈیشن ہوتے ہیں، اس لئے گرم موسم کی شدت بھی برداشت ہو جاتی ہے۔ اسی طرح واش رومز کا بھی خاطر خواہ انتظام کیا جاتا ہے۔ یہاں خواتین اور مردوں کے کیمپ علیحدہ علیحدہ بنتے ہیں لیکن زیادہ فاصلہ نہیں ہوتا۔ اس لئے فیملیز کا آپس میں رابطہ موجود رہتا ہے۔ زیادہ تر خیموں میں صوفہ بیڈ لگا ہوتا ہے جو بیٹھنے اور سونے کے کام آجاتا ہے۔ یہ سارے انتظامات، میں آپکو ایک متوسط لیول کے حج پیکج کے بتا رہا ہوں۔ بہت مہنگا پیکج خریدنے والے لوگوں کیلئے بہتر سہولیات بھی مہیا کی جاتی ہیں۔ اسی طرح جو عازمینِ حج بہت کم وسائل کے ساتھ حج کرنے کیلئے تشریف لاتے ہیں، انکے خیموں میں شاید ائیر کنڈیشنڈ بھی نہیں ہوتا۔ہر سال عازمینِ حج کی بڑھتی ہوئی تعداد کو بہتر انداز سے مینیج کرنے کیلئے علما نے اجتہاد کرکے مناسک حج ادا کرنے کے اوقات اور منیٰ کی رہائش کے بارے میں کئی فتاوے جاری کئے ہیں۔ مثلا منیٰ میں داخلہ سات اور آٹھ ذوالحجہ کی درمیانی رات ہی شروع کر دیا جاتا ہے۔ اسی طرح منیٰ سے عرفات کی طرف روانگی بھی آٹھ اور نو ذوالحجہ کی درمیانی رات، ایک دو بجے کے قریب شروع کر دی جاتی ہے۔ میدانِ عرفات سے مزدلفہ کی جانب روانگی کیلئے بھی مغرب سے پہلے ہی لوگوں کو بسوں پر بٹھا دیا جاتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ بسوں کے نکلتے نکلتے مغرب ہو ہی جاتی ہے۔منیٰ کے کیمپ میں بیٹھے ہوئے دعائیں اور مناجات جاری تھیں کہ اچانک ہمارے خیمے میں پاکستان کے سابقہ وزیر برائے مذہبی امور و حج، محترم پیر نورالحق شاہ صاحب قادری تشریف لے آئے۔ انکے ساتھ، انکے بڑے بھائی بھی تھے، وہ کمال شفقت سے ملے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ کل حج کا رکنِ اعظم، وفوقِ عرفہ ہمارے ساتھ ہی ادا کریں گے، الحمداللہ، ایک بہت ہی اچھا ساتھ مل گیا۔منیٰ کے اس عارضی سیٹ اپ میں پہلے تو لوگ، چار پانچ دن ہمہ وقت رہ کر جمارات کرتے تھے لیکن اب موسم کی سختی، ٹرانسپورٹ کی سہولت اور فتووں کی تبدیلی کے مدِ نظر زیادہ تر لوگ ان کیمپوں میں صرف چند گھنٹے گزارتے ہیں، باقی وقت ان کا اپنے ہوٹلوں میں گزرتا ہے۔پوری دنیا سے آنے والے عازمین کا انتظام کبھی بھی کوئی آسان کام نہیں رہے گا لیکن جس پہلو کو میں تشویش ناک سمجھتا ہوں وہ حج کی سہولیات کے حصول اور فراہم کرنے کی وہ بنیاد ہے جو ہمارے دین کی روح سے لگا نہیں کھاتی۔ پیسہ، اور دنیاوی عہدے !تقویٰ، معذوروں اور ضعیفوں کا احساس جیسی اسلامی بنیادیں، اب ہماری آنکھوں سے اوجھل ہوگئی ہیں۔عمرہ کرتے ہوئے بھی محسوس ہوا تھا کہ امیر افراد اپنا مال و زر لا کر ہر وہ خدمت خرید لیتے ہیں اور اگر آپ کا جیب ہلکا ہے تو آپ چاہے جتنے ضعیف ہوں، معذور ہوں یا بیمار ہوں، آپ کیلئے کوئی ترجیحی سروس نہیں۔ کعبہ کے بالکل سامنے وقف کیا ہوا ٹاور ہوٹل، امیر امرا کو ٹھہرانے کیلئے استعمال ہو رہا ہے۔ اس وقف کو ضعیفوں، معذوروں اور بیماروں کو مناسب نرخوں والی رہائش گاہ کیلئے کیوں استعمال نہیں کیا جاتا؟منی کی رہائش گاہیں بھی بالکل افراطِ زر کے سنہری اصولوں پر بنی ہوئی ہیں۔ جمرات کے قریب والے کیمپ صرف امرا کیلئے مختص ہیں۔ معذور اور ضعیف لوگ میلوں تک دھکے کھاتے پھریں، کوئی حرج نہیں۔منی کی بستی میں ضعیف اور معذور افراد کی حالت زار دیکھ کر سوچ رہا ہوں، اللہ کے رسول ۖ کا کتنا اچھا فیصلہ تھا کہ غیرمسلم، مکہ مدینہ میں نہ آئیں۔ میں عرب بھائیوں کے امیر ہونے پر بہت خوش ہوں۔ جو چیز مجھے تکلیف پہنچا رہی ہے وہ یہ ہے کہ حرمین کے دونوں مقدس مقامات قرآن و حدیث کی رو سے پوری دینا کے مسلمانوں کیلئے مساوی طور پر نہ صرف اہم ہیں بلکہ جذباتی وابستگی کی انتہا ہے۔ ان دو نوں مقدس مقامات پر عزت اور اہمیت کی بنیاد تقویٰ نہ بن سکے تو یہ نظام غیر منصفانہ ہی کہلائے گا۔ کچھ بھی ہو میرا اقبال تو کچھ سمجھا ہی دے گا۔
مرا طریق امیری نہیں فقیری ہے
خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here