اسرائیل نے اقوام متحدہ کی جنگ بندی قرار داد کو اہمیت نہ دیتے ہوئے غزہ شہر کو میدان جنگ قرار دیدیا ہے۔ اسرائیل کی افواج غزہ کے اندر داخل ہو کر کارروائیاں کر رہی ہے۔ اسرائیل کی تازہ کارروائی ٹیلی فون و انٹرنیٹ سہولیات تباہ کرنے کے بعد شروع کی گئی جس سے خدشہ ہے کہ اسرائیل اپنے مظالم کو دنیا کے سامنے لانے سے روک رہا ہے۔ صہیونی فوج نے غزہ کے محصور باشندوں کی زندگی تنگ کر دی ہے۔ دوسری طرف ہیومن رائٹس واچ نے آگاہ کیا ہے کہ شمالی غزہ اور غزہ شہر میں پناہ گزیں کیمپ اسرائیلی حملوں سے محفوظ نہیں رہے۔ غزہ ایک المیہ کا روپ دھار چکا ہے۔ دنیا کے سامنے پون صدی سے دھرا یہ تنازع وقفے وقفے سے لڑائی کا روپ دھار لیتا ہے۔ تعجب اس بات پر ہے کہ ہر بار فلسطینیوں کی کسی مزاحمتی کارروائی کے جواب میں اسرائیل سفاکانہ حملے کرتا ہے سینکڑوں اور ہزاروں فلسطینیوں کو قتل کرتا ہے۔ علاقے کی عمارات تباہ کرتا اور پانی خوراک و توانائی کی ترسیل بند کر دیتا ہے لیکن دنیا کے منصف اس تنازع کے متعلق بے حسی کا رویہ اپنائے رکھے ہیں۔ فلسطینیوں کے ہمسایہ مسلم ممالک اسلحہ کے ڈھیر خرید کر بیٹھے ہیں لیکن وہ اس اسلحے کو اپنی آزادی فلسطینیوں کے تحفظ اور امت مسلمہ کی خیر خواہی کے لئے استعمال نہیں کر سکتے۔ مسلم ممالک کی بے بسی کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ دولت مند عرب ممالک اپنی تمام تر قوت کے باوجود غزہ میں پانی کی ایک بوتل تک نہیں پہنچا سکے۔ یہ درست ہے کہ او آئی سی دفاعی نوعیت کی تنظیم نہیں لیکن یاد رہے کہ اس تنظیم کا قیام ہی فلسطین و عرب ریاستوں کے خلاف اسرائیل کی جارحیت کی وجہ سے ہوا۔ او آئی سی مسلم امہ کے اجتماعی مفادات کی بین الاقوامی آواز ہے۔7اکتوبر سے شروع ہونے والی جنگ 7700فلسطینیوں کی جانیں لے چکی ہے لیکن او آئی سی کو 20دن کے بعد یاد آیا کہ اس معاملے پر اسے بات کرنا ہے۔ او آئی سی نے عالمی طاقتوں سے اپیل کی ہے کہ وہ جنگ بند کرائیں۔ بہتر ہو گا کہ او آئی سی سربراہ اجلاس طلب کرتی اور اس اجلاس میں اقوام متحدہ اور امریکہ کو جنگ بندی کے لئے کردار ادا کرنے کا کہا جاتا۔ اقوام متحدہ سے درخواست کی جاتی کہ اسرائیلی قیادت کو جنگی مجرم قرار دے کر اس کے خلاف مقدمہ چلایا جائے۔ نیتن یاہو اور ان کے ساتھیوں کو فلسطینی آبادی کی نسل کشی کا مجرم قرار دے کر تادیبی کارروائی کا کہا جاتا۔ مغربی دنیا خصوصا یورپی ممالک کو باور کرایا جاتا کہ وہ آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے بنا خطے میں امن کی توقع نہ کریں۔ ضرورت ہوتی تو ایک امدادی فنڈ کا اعلان بھی کر دیا جاتا۔ ایران حزب اللہ اور دیگر بازوئے شمشیر ہائے زن کو موقع دیا جاتا کہ وہ دھمکی آمیز بیانات جاری کرتے۔ یہ سب ہوتا تو اسرائیل کو پیغام جاتا کہ پوری مسلم امہ فلسطینیوں کے ساتھ ہے۔ امریکہ کو اپنے کاروباری مفادات خطرے میں نظر آتے تو وہ جنگ بندی کی کوشش کرتا۔ جب ایسا کچھ بھی نہیں ہوا تو اسرائیل اور اس کے سرپرست شیر ہو گئے۔ اسرائیل ہر روز غزہ کے نہتے لوگوں پر نت نئی جنگی ٹیکنالوجی آزما رہا ہے تازہ اطلاعات کے مطابق اسرائیلی فورسز نے فاسفورس بموں سے حملے کئے ہیں۔ ان بموں سے انسان بری طرح متاثر ہوتے ہیں۔ مبصرین کا خیال ہے کہ اسرائیل فلسطینی شہریوں اور عمارتوں کے ساتھ حماس کی سرنگوں کا نظام تباہ کرنا چاہتا ہے۔ اسرائیل سینکڑوں کلو میٹر پر مشتمل اس نظام کو حماس کی پناہ گاہ اور اپنے خلاف موثر دفاعی منصوبہ بندی سمجھتا ہے۔ اسرائیل طے کر چکا ہے کہ غزہ کو مکمل برباد کئے بنا جنگ بند نہیں روکی جائے گی۔ اب تک کی صورت حال بتاتی ہے کہ جنگ کو شدید کرنے غزہ کا محاصرہ کرنے پانی خوراک اور توانائی کی بندش ٹیلی فون اور انٹرنیٹ نظام کو ناکارہ بنانے اور ہسپتالوں ،تعلیمی اداروں و پناہ گزین کیمپوں کو نشانے بنانے جیسے فیصلے اسرائیل خود کرتا آ رہا ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ دنیا کی سپر طاقت امریکہ غیر مشروط طور پر اسرائیلی اقدامات کی حمایت کر رہی ہے۔ امریکہ یہ حمایت اس وجہ سے کر رہا ہے کہ اس کی معیشت یہودی چلا رہے ہیں دوسری وجہ یہ ہے کہ اسرائیل کو خوف کا پتلہ بنا کر عرب ملکوں کو اسلحہ فروخت کیا جاتا ہے۔ تیسری وجہ یہ کہ امریکہ اس خوف کا فائدہ اٹھا کر خلیجی ممالک کا تیل اپنے لئے اور اپنے اتحادیوں کے لئے من چاہے داموں پر خرید رہا ہے۔ اس تیل سے امریکی بلاک کے ملکوں کی مشینیں اور پیداواری صنعت چلتی ہے۔ اسرائیل کے ظالمانہ اقدامات کا دفاع کوئی نہیں کر سکتا بس ایک امریکہ ہے جسے ہزاروں فلسطینیوں کی لاشوں کا وزن اسرائیل کے نام نہاد حق دفاع سے کم معلوم ہوتا ہے۔ پاکستان سمیت مسلم ممالک کو فوری طور پر اقوام متحدہ کا ہنگامی اجلاس بلانے کے لئے کردار ادا کرنا چاہیے۔ اسرائیل کی حمایت کرنے والے ملکوں کو سفارت اور معاشی سطح پر پیغام دیا جائے کہ ان کے فیصلے انسانیت کے خلاف جرائم کا ارتکاب کرنے والے اسرائیل کو مدد دے رہے ہیں۔ اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا جائے کہ وہ بوسنیا کی طرح غزہ میں اسرائیلی افواج کے جرائم کی تحقیقات کے لئے ٹربیونل قائم کرے یہ ٹربیونل مجرم ثابت ہونے والے حکام کو سزا کا اختیار بھی رکھتا ہو۔ ان اقدامات میں تاخیر کا نتیجہ مزید فلسطینیوں کی ہلاکتوں کی شکل میں برآمد ہو سکتا ہے۔
٭٭٭