ہم نے اپنے گزشتہ کالم کچھ بھی اچھا نہیں ہو رہا میں وطن عزیز میں جاری انسانیت سوز و معاشرتی چیرہ دستیوں، نا انصافیوں پر اظہار کرتے ہوئے ان برائیوں کو قرار دیا تھا جو گائوں، ضلع سے لے کر ایوانوں، سرکاری و نیم سرکاری اداروں، لاء و جسٹس اور قانون کے نفاذ کے معاملات پر نسل در نسل قابض رہے ہیں۔ حد یہ کہ کاروبار و تجارت اور معاشی حتیٰ کہ سماجی طور پر بھی یہی حاوی ہیں۔ نظام حکومت و ریاست ہو، چوپال سے اعلیٰ انصاف کے ادارے ہوں، ان کے اشارۂ ابرو پر ہی عمل پیرا ہوتے ہیں جنہیں عرف عام میں زور آور و طاقتور کہا جاتا ہے۔ یہ زور آور ہر زمانے میں اپنے تسلط کیلئے کسی بھی طریقے سے کسی بھی نظام کے نام پر تسلط قائم رکھتے ہیںَ شہید ملت لیاقت علی خان کی شہادت اور خواجہ ناظم الدین کی گورنری سے برخواستگی سے تاہنوز مختلف نظاموں کے حوالے سے عوام کی مرضی و مینڈیٹ کے برخلاف اقتدار پر براجمان قوتوں کو ان کے مقاصد کی تکمیل میں معاونت جاگیرداروں، وڈیروں، سرداروں، سیاست کے ان ہرکاروں اور عوامل نے کی ہے جو عوام کی مرضی کے برعکس تلوے چاٹ کر اقتدار کا ہما اپنے سر پر سجانے کے خواہشمند رہتے ہیں، جو حکم پر نہ چلیں اور سر اٹھائیں ان کا انجام شہید بھٹو، شہید بی بی جیسا ہوتا ہے۔ یہاں یہ عرض کرنا بھی غلط نہ ہوگا کہ اس کھیل میں بیرونی قوتوں کا کردار بھی بعید از قیاس نہیں، اس کی اہم ترین مثال جنرل ضیاء الحق کی ہے، جن کی ہلاکت کیلئے متعلقہ قوت نے اپنے سفیر کی بھی قربانی دیدی۔
ہم نے درج بالا حقائق کا ذکر اس تناظر میں کیا ہے کہ موجودہ ہائبرڈ نظام کے سرخیل پر سب سے مقتدر مملکت کے صدر اسوقت کچھ زیادہ ہی مہربان نظر آرہے ہیں، وطن عزیز اور محترم عسکری قائد کی تعریفیں، دونوں ممالک کے درمیان دوستی و تعلقات کے اظہار کیساتھ ہمارے ازلی دشمن پر تنقید کے نشتر کے علاوہ 28 مرتبہ ایٹمی دونوں ممالک کے درمیان سیز فائر کرانے کا اعادہ بے معنی نہیں ہو سکتا ہے۔ بقول شخصے کچھ تو ہے جو محترم صدر امریکہ اتنے مہربان ہیں، ہماری سوچ تو ہے کہ صدر ٹرمپ کا جنگ بندی کے ذکر کا بار بار اظہار تو نوبل امن ایوارڈ کے حصول کے حوالے سے ہے کہ یہی مدعا روس و یوکرین اور ایران و اسرائیل کیلئے بھی دہرایا جا رہا ہے۔ پاکستان سے محبت و مہربانی کی دوسری وجہ بھارت کی خطے میں سیاسی عسکری و سفارتی ناکامی کے ساتھ پاکستان میں قیمتی ترین معد نیات کا ہونا بھی ہو سکتا ہے اور امریکی صدر و انتظامیہ چین سے معاشی مسابقت کی دوڑ میں سبقت لانے پر مستعد ہیں۔ امریکہ پاکستان خوش گوار تعلقات کی صورت بظاہر بہت اچھی ہو سکتی ہے لیکن تاریخ اس حقیقت کی شاہد ہے کہ امریکہ بہادر ”مطلب نکل گیا ہے تو پہچانتے نہیں ” کی واضح مثال ہیں ۔ سب سے بڑی بات یہ کہ کسی بھی ملک کی ترقی و خوشحالی اور استحکام کی بنیاد مضبوط سیاسی، معاشی و معاشرتی اور امن و امان سے مشروط ہوتی ہے، سوال یہ ہے کہ ہمارا وطن موجودہ حوالوں سے استوار ہے ؟ جواب یہ ہے کہ ہر گز نہیں، معاشرتی برائیوں سے متعلق تو ہم مسلسل اپنے احساسات و تحفظات کا اظہار کرتے رہے ہیں گذشتہ ہفتہ بھی غیرت کے نام پر ظلم و قتال، بدقماشیوں اور جبر و استبداد سے عبارت ہے۔ سب سے بدتر صورتحال سیاسی حوالوں سے پیش نظر ہے۔ گذشتہ تین برسوں سے رجیم چینج کے نام پر ملک کی سب سے مقبول سیاسی جماعت اور عوام کے محبوب ترین رہنما کیساتھ جو غیر جمہوری ، نا انصافی ظلم و بربریت کا سلسلہ جاری ہے اس میں مزید اضافے نے نہ صرف جمہوریت اور انصاف کی دھجیاں بکھیر دی ہیں بلکہ عوام میں بھی مقتدرہ کے خلاف رد عمل ، انصاف پر بے اعتمادی اور مایوسیوں میں اضافہ کر دیا ہے،دو برسوں سے زیادہ قید و بند ، سزائوں کی ناانصافی، ظلم و جبر اور پی ٹی آئی میں دراڑیں ڈالے جانے کے باوجود عمران خان کی استقامت میں کوئی فرق نہیںپڑا اور دوسروں کی طرح اسٹیبلشمنٹ کی کسی بھی ڈھیل پر راضی نہیں ہوا ہے، 8 فروری کے عوام کے بھرپور مینڈیٹ کو چھینے جا نے کے ساتھ ، غلط عدالتی فیصلوں جیسی سازشوں کے بعد 9 مئی کے حوالے سے اب عمران کے وفادار ساتھیوں اور پارٹی کے غیر متزلزل رہنمائوں کو سزائیں دینے کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ عمر چیمہ، ڈاکٹر یاسمین راشد، اعجاز چوہدری ، میاں محمود الرشید،پنجاب اسمبلی کے قائد حزب اختلاف وغیرہ کو ATC عدالتوں سے 10 سالہ سزائوں کا فیصلہ اور الیکشن کمیٹی کا تین لوگوں کو ڈی سیٹ کرنے کرنے کا فوری اقدام اس امر کی نشاندھی ہے کہ ظلم و سزائوں کا سلسلہ رکنے والا نہیں ۔ بیرسٹر گوہر کاکہنا ہے کہ مزید 39 افرا دکو سزائیں دیئے جانے کی خبریں ہیں جن میں سینیٹ ، قومی و صوبائی اسمبلیوں کے اراکین شامل ہیں۔ ہمارا مؤقف ہے کہ اگر عوام کے بلا شبہ مقبول ترین قائد اور وطن عزیز کی سب سے بڑی جماعت سے بغض و عناد، سزائوں اور جماعت میں دراڑیں ڈالنے اور ختم کرنے کا سلسلہ اسی طرح جاری رہے گا تو کیا وطن کی سلامتی خوشحالی اور عالمی اہمیت وقعت پر حرف نہیں آئیگا۔ شنید تو یہ بھی ہے کہ موجودہ رجیم کا ارادہ طویل عرصہ تک جاری رکھنے کا ہے، سوال یہ ہے کہ رجیم کے اصل محرک اور حقیقی حکمران کیا چاہتے ہیں۔ وطن کے تحفظ، عوام کی بہتری اور سیاسی استحکام کیلئے موجودہ روئیے ہر گز درست نہیں ہیں۔ اور وطن دشمنی کے زمرے میں آتے ہیں۔
ہے جرم اگر وطن کی مٹی سے محبت
یہ جرم سدا میرے حسابوں میں رہے گا
٭٭٭٭٭٭















