ریکوڈک کیس میں پاکستان کی تاریخی فتح

0
148

روڈٹائون (پاکستان نیوز) برٹش ورجن آئی لینڈز (بی وی آئی) کی ہائی کورٹ نے ٹیتھیان کاپر کمپنی (ٹی سی سی) کے دائر کردہ کیس میں پاکستان کے حق میں فیصلہ دے دیا۔ریکوڈک جس کا مطلب بلوچی زبان میں ”ریت کا ٹیلہ” ہے، بلوچستان کے ضلع چاغی میں واقع ایک چھوٹا گاؤں ہے جو ایران اور افغانستان سرحد کے قریب واقع ہے۔ریکوڈک دنیا میں سونے اور تانبے کے پانچویں بڑے ذخائر کے حوالے سے جانا جاتا ہے۔جولائی 1993میں اْس وقت کے وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ذوالفقار علی مگسی نے ریکوڈک منصوبے کا ٹھیکہ آسٹریلوی کمپنی پی ایچ پی کو دیا تھا۔بلوچستان کے 33 لاکھ 47 ہزار ایکڑ پر واقع اس منصوبے کا معاہدہ صرف ڈرلنگ کے لیے ہوا تھا لیکن آسٹریلوی کمپنی نے حکومت بلوچستان کو اعتماد میں لیے بغیر مزید کام کرنے کے لیے اطالوی کمپنی ٹیتھیان سے معاہدہ کرلیا تھا۔آسٹریلوی کمپنی نے کوشش کی تھی کہ گوادر پورٹ کے ذریعے ریکوڈک کا سونا اور تانبہ کینیڈا، اٹلی اور برازیل کو فروخت کرے جس کی بدولت بلوچستان کو مجموعی آمدنی کا صرف 25 فیصد حصہ ملنا تھا تاہم بلوچستان حکومت نے پی ایچ پی کی جانب سے بے قاعدگی کے بعد معاہدہ منسوخ کردیا تھا، بعد ازاں صوبائی حکومت نے 2010 میں یہ بھی فیصلہ کیا تھا کہ صوبائی حکومت اس منصوبے پرخود کام کرے گی۔علاوہ ازیں جنوری 2013 میں اْس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے بلوچستان حکومت اور آسٹریلوی مائننگ کمپنی کے درمیان ریکوڈک معاہدے کو ملکی قوانین کے منافی قرار دیتے ہوئے کالعدم قرار دے دیا تھا۔اس وقت تک کمپنی ریکوڈک میں 22 کروڑ ڈالر کی رقم لگا چکی تھی چنانچہ کمپنی نے عالمی بینک کے ثالثی ٹریبونل سے 2012 میں مدد کی درخواست کی اور ٹریبونل نے 2017 میں سپریم کورٹ کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے پاکستان کے خلاف فیصلہ سنایا۔ٹریبونل نے منسوخ شدہ لیز سے ہونیوالے نقصان کا تخمینہ ٹیتھیان کے کان کنی سے 56 سال میں ممکنہ طور پر حاصل ہونیوالے منافع کو فرض کر کے لگایا اور لیز منسوخ کرنے پر پاکستان کو 5 ارب 97 کروڑ ڈالر کا ہرجانہ ادا کرنے کا حکم دیا۔کمپنی نے ریکوڈک ہرجانے کے طور پر پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز انویسٹمنٹ لمیٹڈ سے تعلق رکھنے والے اثاثوں بشمول نیویارک اور پیرس میں موجود ہوٹلز کے حصول کے لیے کیس دائر کیا تھا۔دسمبر 2020 کو بی وی آئی ہائی کورٹ نے ایک یکطرفہ فیصلے کے تحت پی آئی اے کے اثاثوں کو منسلک کرنے کا حکم دیا تھا جس میں روز ویلٹ ہوٹل مین ہٹن، نیویارک میں کمپنی کے مفادات، وسطی پیرس میں سکرائب ہوٹل کے علاوہ تیسرے فریق کے ادارے منہل اِنکارپوریٹڈ میں پی آئی اے کے 40 فیصد منجمد حصص شامل ہیں۔بی وی آئی کورٹ نے 16 دسمبر کو جاری کردہ حکم میں ہی عبوری بنیاد پر ان اثاثوں کو وصول کرنے والا بھی مقرر کردیا تھا۔انٹرنیشنل ڈسپیوٹ یونٹ کا کہنا تھا کہ بی وی آئی کورٹ نے فیصلہ دیا ہے کہ اس کے پاس اس معاملے کا فیصلہ کرنے کا دائرہ اختیار نہیں تھا اور ساتھ ہی وصول کنندہ کو بھی فوری طور پر ہٹا دیا گیا ہے۔آئی ڈی یو کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے بھی آئی ڈی یو اور اٹارنی جنرل کے دفتر کی کوششوں کو سراہا جس نے پاکستان کے لیے یہ اہم کامیابی حاصل کرنے میں مدد کی۔آئی ڈی یو کا کہنا تھا کہ پی آئی اے کی کمپنیوں کے خلاف پرووژنل چارجنگ آرڈر بھی مکمل طور پر کالعدم قرار دے دیا گیا اور ٹیتھیان کمپنی کو حالیہ کارروائی پر آنے والی لاگت ادا کرنے کا بھی حکم دیا گیا ہے، اس طرح روزویلٹ اور سکرائب ہوٹل چھیننے کی کوششیں ناکام ہوگئیں۔اٹارنی جنرل فار پاکستان خالد جاوید خان نے کہا کہ بی وی آئی ہائی کورٹ کا فیصلہ پاکستان اور پی آئی اے کے لیے بڑی قانونی کامیابی ہے۔ پی آئی اے آئی ایل کے خلاف اس سے قبل جاری ہونے والے تمام فیصلے بی وی آئی ہائی کورٹ نے واپس لے لیے ہیں ساتھ ہی انہوں نے روز ویلٹ ہوٹل نیویارک اور سکرائب ہوٹل پیرس کے حصول کے لیے تعینات کردہ شخص کو بھی برطرف کردیا ہے اور قانونی کارروائی کی لاگت بھی دی جائے گی۔دوسری جانب پی آئی اے نے ایک ٹوئٹر پیغام میں کہا کہ اللہ کے کرم اور تمام ہم وطنوں کی دعاؤن سے بی وی آئی میں موجود عدالت نے پی آئی اے کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے مشکل سے بنائے گئے اثاثے بحال کردیے جو روزویلٹ این وائے سی اور سکرائب پیرس ہیں، پی آئی اے اور پاکستان کے لیے بڑی کامیابی، ہم اکٹھے جیت گئے۔خیال رہے کہ آئی سی ایس آئی ڈی ٹریبونل میں پاکستان اور ٹیتھیان کاپر کمپنی کے درمیان یہ تنازع اس وقت زیر بحث آیا جب کمپنی نے 8 ارب 50 کرور ڈالر کا دعویٰ کیا جبکہ بلوچستان کی کان کنی اتھارٹی نے صوبے میں 2011 میں کئی ملین ڈالر کی کان کنی کی لیز دینے سے انکار کردیا تھا۔جولائی 2019 میں آئی سی ایس آئی ڈی ٹریبونل نے آسٹریلین کمپنی کو کان کنی کی لیز دینے سے انکار پر پاکستان کو 5 ارب 97 کروڑ ڈالر ہرجانے کی ادائیگی کا حکم دیا تھاجس کے فوری بعد کمپنی نے اس فیصلے کے نفاذ کے لیے کارروائی شروع کردی تھی، نومبر 2019 میں پاکستان نے اس فیصلے کو چیلنج کرتے ہوئے ہرجانے کی منسوخی کی درخواست کی تھی۔رواں برس مارچ میں اٹارنی جنرل کے دفتر نے اعلان کیا تھا کہ پاکستانی حکومت ایسے مواقع تلاش کر رہی ہے جس کے تحت 5 ارب 90 کروڑ ڈالر کے جرمانے پر عملدرآمد پر حکم امتناع حاصل کیا جاسکے اور 8 نومبر 2019 کو انہوں نے ‘آئی سی ایس آئی ڈی’ کے 12 جولائی 2019 کے فیصلے کے خلاف درخواست دائر کی تھی۔اس ہرجانے کی منسوخی کی درخواست کے ساتھ پاکستان نے 18 نومبر 2019 کو ہرجانے کے نفاذ کو عارضی طور پر معطل کرنے کی بھی درخواست دی تھی چنانچہ پاکستان کو منسوخی کی کارروائی شروع ہونے پر عارضی حکم امتناع دے دیا گیا تھا۔16 ستمبر 2020 کو ٹریبونل نے پاکستان کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے ہرجانے کے نفاذ پر حکم امتناع کی تصدیق کی تھی۔یاد رہے کہ پی آئی اے کے اثاثے منجمد کرنے کی اطلاعات اور بی وی آئی ہائی کورٹ کے پہلے حکم سے 23 دسمبر 2020 کو پاکستان کو آگاہ کیا گیا تھا۔اس وقت اٹارنی جنرل نے کہا تھا کہ پاکستان تمام دستیاب قانونی وسائل استعمال کرتے ہوئے ان کارروائیوں کا بھرپور مقابلہ کرے گا اور حکومت نے بھی قومی اثاثوں کی حفاظت کا عزم دہرایا ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here