” ڈوبتی کشتی کے ناخدا ”

0
128
جنید خان تنولی
جنید خان تنولی

کشتی ڈوب رہی تھی، مسافروں ،ملاحوں اور ناخداوں سمیت، بڑے شوق سے پورے نظام کو یرغمال بنا کر لائے تھے اور پھر قدم قدم پر طوفانوں سے بچاتے رہے لیکن اناڑی اور خود پسندی کے شکار ملاح کو اندازہ ہی نہیں تھا کہ آگے کون سا بھنور ہے’ بلکہ کشتی کا چپو سنبھالنے کے بعد اس نے ایک لمحے کے لیے بھی منزل کے تعین کے بارے میں سوچنے کی زحمت گوارا نہ کی وہ تو بس دھتکار کر اتارے گئے ملاحوں کا مذاق اڑانے، انہیں گالیاں اور برا بھلا کہنے اور پھر اس پر تالیاں بجانے کو منزل سمجھ رہا تھا۔ 5600 ارب بجٹ خسارہ، 4500 ارب پاور کا سرکلر ڈیٹ، 600 ارب روپے گیس کا سرکلر ڈیٹ، اور مالی سال کے اختتام تک 20 ارب ڈالر کے قریب کرنٹ اکائونٹ اور 48 ارب ڈالرز کا تجارتی خسارہ۔ دوسری جانب تجوری میں صرفِ 1.9 ارب ڈالر کے قابل استعمال ذخائر جس سے صرف 25 سے 30 دن کا امپورٹ کا بل بمشکل ادا ہو۔ قرضوں میں 22 ہزار ارب روپے سے زائد کا اضافہ اور اڑوس پڑوس میں کوئی گھر ایسا نہیں جس سے بھیک مانگ کر نہ لایا ہو۔ یہ وہ زمینی حقائق تھے جب ناخداوں کو اپنی تنخواہوں اور پنشن کی فکر لاحق ہوئی۔ دھتکارے گئے ملاحوں کو پھر پکارا گیا، شہباز جیسا دیوانہ آیا اور کشتی کو منجھدار سے نکالنے کے لیے کمربستہ ہوا۔ لیکن ناخداوں کی خدائی کا گھمنڈ پھر بھی اوج ثریا پر تھا۔
وہ ڈوبتی کشتی کے ساتھ اپنے وقار کو بھی بچانا چاہتے تھے، بربادی کی زمہ دار قبول کرنے کے لیے تو کوئی بھی تیار نہیں الٹا ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اپنے ایک گروپ کو اس نالائق کی حمایت میں اتار دیا۔ الیکٹرانکس اور سوشل میڈیا پر اسے ہیرو بنا کر پیش کیا گیا، اس کی آئین شکنی، کرپشن اور بدانتظامی سے نہ صرفِ چشم پوشی کی گئی بلکہ اعلی عدالتیں منتیں کرتیں پھر رہی ہیں کہ مہاتما جی سے کہیں ہم پر اعتماد تو کرے۔ دوسری جانب یہی عدالتیں مریم نواز کے ایک پاسپورٹ کا کیس سننے کے لیے تیار نہیں، ایک نکٹھو صدر اور گورنر کشتی کے آئینی تختے اکھاڑنے کے لیے آزاد۔ ناخداوں کو بس چند ملاحوں کی ضرورت ہے جو جان جوکھم میں ڈال کر کشتی کو پار لگا دے لیکن نجات دہندے نہ کہلائے۔ بلکہ الٹا سر جھکا کر نالائق لاڈلے اور اس کے کتوروں کے گالیاں سنتے رہیں، باہمی اختلافات کے باوجود ناخداوں کا پورا جتھہ اس بات پر متفق ہے’فارن فنڈنگ کا کیس پچھلے کہی سالوں سے لٹکا ھوا ھے ویسے تو رآت بارہ بجے بھی عدآلتیی کھل جاتی ھے مگر لاڈلے کے ساتھ اب بھی لاڈ پیار جاری ہے لاڈلے کو بطور اثاثہ محفوظ کیا جائے، ان کے مشترکہ صفحے میں آج بھی نواز شریف اور مریم نواز کے نام کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ لیکن یہ بھولے بادشاہ بھول جاتے ہیں کہ کشتی کو پار لگانے والے اندرونی اور بیرونی مددگار نواز شریف کے علاہ کسی اور نام کو نہیں جانتے۔
اب یہ صفحہ آپ کے بجائے اس کی مرضی سے ترتیب دیا جائے گا۔ یہ نکتہ بارہ جماعت پاس مخلوق کو جتنا جلدی سمجھ آئے اتنا اس ڈوبتی کشتی کے حق میں بہتر ہے۔
ورنہ سیاست دانوں کا کیا جاتا ہے، جہاں نیازی ہزار یوٹرن کے بعد بھی صادق آمین اور ہیرو ہے وہاں ایک یوٹرن سے شہبازشریف اور آصف علی زرداری کا کیا نقصان ہو گا۔
لیکن مولا خوش رکھے ،
اگر خدانخواستہ یہ کشتی ڈوبتی ہے تو بچنا کسی نے بھی نہیں۔
۔2018 سے لیکر 2022 تک تحریک انصاف حکومت میں معیشت کیساتھ کیا گیا سلوک دنیا کے سامنے ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here