پچھلے دو تین مہینوں سے ہیوسٹن میں پی اے جی ایچ کے الیکشن کے سلسلے میں بڑی گہما گہمی رہی ایک دوسرے کیخلاف غلیظ زبانیں بھی استعمال ہوتی رہیں جو دوست تھے وہ آپس میں دشمن نظر آرہے تھے ا ور جو دشمن تھے وہ دوست بن گئے یہی ہماری کمیونٹی کی خاصیت ہے، حالانکہ ہماری کمیونٹی پڑھی لکھی کہلاتی ہے لیکن اس الیکشن میں کہیں بھی وہ چیز نظر نہیں آئی جو ایک کمیونٹی کی صورت میں ہم ایک ہوئے ہوں، ہمیشہ سے گروپ بندی ہمارا شیوہ رہی ہے اور جو بھی الیکشن ہار جاتا ہے وہ اپنی الگ جماعت بنا لیتا ہے اس الیکشن میں جس طرف سے بھی غلطیاں ہوئی ہیں ہمیں اس کا ازالہ کرنا چاہیے اور جس شخص نے ای میل کے ذریعے پاکستان سینٹر کو چکلہ سے تشبیہہ دی ہے اب وہ کیا اس چکلہ میں آکر کیا کردار ادا کریگا، رزاقی صاحب اب تو صدر بن گئے ہیں اور اپنی صفوں سے ایسے لوگوں کو اگر آپ باہر ہیں کرینگے تو آگے چل کر آپ کو نقصان نہیں اُٹھانا پڑے گا جیسا میٹ دی کنڈیڈیٹ میں ہوا تھا، خدا کا شکر ہے کہ الیکشن کے دوران ایسی کوئی حرکت نہیں ہوئی جو نازیبا قرار دی جا سکے سب نے انجوائے کیا دونوں طرف سے نعرے بازی ضرور ہوئی جو کہ اس کا حصہ ہے ایک دوسرے کیخلاف کوئی گندی زبان استعمال نہیں کی گئی الیکشن کمیشن کیخلاف شکایتیں ہیں بہت سے لوگوں کو ووٹ کا حق نہیں دیا گیا کافی غلطیاں ہیں جس میں پی اے اجی ایچ کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا جا رہا ہے۔ مستقبل میں ایسی غلطیاں نہیں ہونی چاہئیں۔ ہمارے الیکشن کمشنر کھوکھر صاحب بہت جذباتی آدمی ہیں ان کی ایمانداری پر شک نہیں کیا جا سکتا لیکن جب انہوں نے رزلٹ کا علان کرنے سے انکار کیا اور کہا کہ آپ لوگ گھر جائیں ہم ای میل کر دینگے اس پر دونوں بلکہ تینوں گروپوں نے احتجاج کیا کہ ہم یہاں رزلٹ کیلئے آئے ہیں یہی تو الیکشن کی رونق ہوتی ہے کھوکھر صاحب کوشاید اطلاع ملی تھی کہ ہنگامے کا خطرہ ہے اس لیے وہ رزلٹ کا اعلان نہیں کرنا چاہتے تھے جبکہ سلمان رزاقی اور غلام محمد بمبئے والا نے اعلان کر دیا تھا کہ کوئی بھی جیتے یا ہارے کوئی بھی بدتمیزی نہیں کرے گا ارو ہار یا جیت خوش دلی سے قبول کرنی ہوگی اور ہوا بھی ایسا ہی رزلٹ سے پہلے ہی دونوں امیدواروں نے ایک دوسرے کو گلے لگایا تھا جس پر دونوں طرف سے تالیاں بجائی گئیں۔ تین دن تک خُوب رونقیں لگی رہی اور لوگوں نے خُوب کھانے کھائے، مفتوں کے مزے آئے ہوئے تھے دونوں طرف سے کھا رہے تھے 18 سال بعد ایسی رونقیں دیکھنے کو ملی ہیں اور اب یہ امید کی جاتی ہے کہ ہر دو سال بعد پھر الیکشن ہوتے رہیں تاکہ پی اے جی ایچ سے یہ داغ بھی دُھل جائے کہ یہاں سلیکشن ہوتی ہے الیکشن نہیں ہوتے الیکشن اس لئے نہیں ہوتے کہ ہمارے لیڈران آگے نہیں آئے اور انہوں نے پی اے جی ایچ کو آگے بڑھانے کی کوشش نہیں کی ۔ا گر اس وقت بھی کوئی سلمان رزاقی پیدا ہو جاتا اور آگے بڑھتا تو الیکشن ضرور ہوتے پی اے جی ایچ کسی کی جائیداد نہیں ہے یہ کمیونٹی کا سینٹر ہے کمیونٹی کی جماعت ہے اس لیے اس کا نام ہوگا تو پاکستان کا نام ہوگا کیونکہ اس کیساتھ پاکستان جُڑا ہوا ہے کچھ لوگوں نے اعتراض کیا ہے کہ غیر پاکستانی اس کے ممبر کیسے بن گئے اور کس نے بنائے اس پر یہ جواب آیا کہ ہمارے دستور میں کوئی ایسی شق نہیں ہے کہ کوئی غیر پاکستانی اس کا ممبر نہیں بن سکے اگر آپ کو پاکستانی جماعت ہی رکھنی ہے تو ترمیم کر کے اس کو ختم کر دیں یہ جوش و جذبہ ہماری کمیونٹی میںآیا ہے اس کو ختم نہیں ہونا چاہیے اور ہم لوگوں کو ایک ہو کر جو ہم نے وعدے کئے ہیں اپنے تمام اختلافات بھلا کر ایک نئے جذبے کے ساتھ آگے بڑھنا ہے۔ گلے ملنے سے یا تصویر کھنچوانے سے محبتیں نہیں ہوتیں اپنے دلوں کو صاف کرنے سے محبتیں بڑھتی ہیں اور میں ٹیم پاکستان کو مبارکباد پیش کرتا ہوں جنہوں ے بہت محنت کی اور الیکشن میں کامیابی حاصل کی۔ اب تو مشکلات کا سفر شروع ہوا ہے۔ دیکھ بھال کر قدم رکھنا ہے اور پی اے کوجی ایچ اور پاکستان سینٹر کو اپنی کمیونٹی کی خدمت کیلئے فعال بنانا ہے اور ایسے لوگوں پر بھی نظر رکھنی ہوگی جو صرف اپنے مفاد کیلئے آپ کیساتھ ہوئے ہیں غلام محمد بمبئے والا نے بڑے صدق دل سے سلمان رزاقی اور ان کی ٹیم کو مبارکباد دی ہے جس کو سلمان رزاقی نے بھی صدق دل سے قبول کیا ہے ا ور وہ انشاء اللہ سب کے ساتھ مل کر اچھے کام کرینگے ارو سب کو جوڑ کر رکھیں گے۔ پرانے اختلافات بھلا کر نئے عزم کیساتھ کمیونٹی کی خدمت کریں کمیونٹی آپ کو اپنی آنکھوں پر بٹھائے گی۔
٭٭٭