اللہ تعالیٰ نے انسان کو بے تحاشا نعمتوں سے نوازا ہے اور اپنے بندوں کو حکم دیا ہے کہ وہ ان نعمتوں کا شکر بجا لائیں۔ انہی نعمات خداوندی میں سے ایک بڑی نعمت والدین ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر حد درجہ مہربان ہے اور اس کے دنیا میں آنے سے پہلے ہی اس کی دیکھ بھال اور نگہداشت کا انتظام کرتا ہے اور ماں باپ کی صورت میں دو مہربان و شفیق ہستیاں عطا کرتا ہے کہ جو اس کا ہر لحاظ سے خیا ل رکھتی ہیں اور وہ دکھ و مصیبت کو جھیل کر اسے ہر خوشی بہم پہنچانے کی سعی و کوشش کرتے ہیں۔ ان کی انہیں کوششوں اور محنت کے عوض میں اللہ تعالیٰ نے اولاد پر اپنے ماں باپ کے احترام کو واجب قرار دیا ہے جیسا کہ ارشاد رب العزت ہوتا ہے، ترجمہ: تمہارے رب نے فیصلہ کر دیا ہے کہ اس کے علاوہ کسی اور کی عبادت نہ کرو اور والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو۔(سورہ اسرا:23) اس آیت میں جہاں اللہ تعالیٰ نے اپنی اطاعت و عبادت کا فیصلہ سنایا ہے تو اس کے فورا بعد والدین کی اطاعت و فرمانبرداری کا حکم بھی دیا ہے یعنی اللہ تعالیٰ کے ہاں جس قدر اس بات کو اہمیت حاصل ہے کہ اس کا کوئی شریک نہ ٹھہرایا جائے اسی قدر اس بات کی بھی پروا ہے کہ کوئی بھی اپنے والدین کی نافرمانی نہ کرے۔
شریعت مقدسہ اسلام نے حقوق والدین کے سلسلے میں بہت سختی کی ہے اور اولاد کے لیے والدین کے بارے میں بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے۔ اسی طرح حدیث قدسی میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے لوح محفوظ پر سب سے پہلے دو چیزیں لکھیں: 1۔ اللہ کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں ہے ۔ 2۔ جس شخص سے اس کے والدین راضی ہوں میں بھی اس سے راضی اور جس سے اس کے والدین ناراض ہوں گے تو میں بھی ان سے ناراض ہوں۔اسی آیت میں والدین کی عظمت کو بیان کرتے ہوئے مزید فرمایا ہے کہ: ترجمہ :-اگر تمہارے پاس ان میں سے ایک یا دنوں بوڑھے ہو کر رہیں تو انہیں اف تک نہ کہو اور نہ انہیں جھڑکو۔ ان کے ساتھ احترام کے ساتھ بات کرو۔ نرمی اور رحم کے ساتھ ان کے سامنے جھک کر رہو اور دعا کیا کرو کہ پروردگار! ان پر رحم فرما جس طرح انہوں نے مجھے رحمت وشفقت کے ساتھ بچپن میں پالا تھا۔ (سورہ بنی اسرائیل 23،24)
اس آیت سے ہمیں یہ نتیجہ ملتا ہے کہ جس طرح والدین بڑھاپے میں اولاد کے احسان کے محتاج ہوتے ہیں اسی طرح اولاد کو بھی زندگی کے ہر موڑ پر والدین کی توجہ کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔پس اللہ نے اس ضرورت کو فطرت کے ذریعے پورا کیا اور والدین کے دل میں اولاد کی محبت اس طرح ودیعت فرمائی کہ وہ اولاد کو اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز سمجھتے ہیں، جبکہ خدا نے والدین سے اچھائی کرنے کو اپنی وحدانیت کے فورا بعد قرآن کی متعدد جگہوں پر اہم فریضہ قرار دیا کیونکہ انسان فطرتا آنے والی نسل کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور اپنے والدین کو اولاد فراموش کر دیتی ہے، تو اللہ تعالی نے اس آیت کی رو سے انسان کو یہ بتایا کہ تم ہمیشہ اپنے والدین کے ساتھ انکساری سے پیش آ اور کبھی ان پر غصہ نہ کرو اور انکے احسانات کو ہمیشہ یاد رکھو، کیونکہ انہوں نے بچپن میں تمہیں بہت مشقت سے پالا ہے تو آج ان کے بڑھاپے میں ان کا بھی وہی خیال رکھو، ان کو کوئی اذیت والی بات نہ کہو اگرچہ اف ہی کیوں نہ ہو۔ ایک مومن کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے والدین کی عزت و تکریم اور ان کے احترام کے لیے اپنی پوری طاقت صرف کرے اور ان کی خدمت گذاری میں کوئی کسر روا نہ رکھے اور جس قدر ہو سکے ان کی حاجت روائی کرے اور اپنی پوری توجہ اس بات پر رکھے کہ ان کو جن چیزوں کی احتیاج ہو وہ ان تک پہنچا دے تاکہ انہیں ان چیزوں کے بارے میں اس سے سوال نہ کرنا پڑے۔ ان کے سامنے کبھی بھی اونچی آواز سے بات نہ کرے۔ انہیں اذیت و دکھ دینے سے گریز کرے اور اگر کبھی وہ کچھ برا بھلا کہہ بھی دیں تو ان کو اف تک نہ کہے۔ اس کلمہ اف کے متعلق امام جعفر صادق سے منقول ہے کہ اف کہنا یہ سب سے کم درجہ کی نافرمانی ہے۔ اگر اف سے بھی کم درجہ کی کوئی چیز ہوتی تو اللہ تعالی اس سے بھی منع فرماتا۔
یہ بات مسلم ہے کہ ماں باپ سے نیکی کرنا ایک انسانی فریضہ ہے اور والدین کی اطاعت کرنا انسانیت کا تقاضا بھی ہے اور ماں باپ سے نیکی کا حکم صرف مسلمانوں کے لئے نہیں بلکہ تمام انسانوں کے لئے ہے، ہر انسان پر لازم ہے کہ والدین کا حق شناس ہو اور زندگی بھر اپنے والدین کا احترام اور ان سے اچھا سلوک کرنا ہرگز فراموش نہ کرے، اور جو انسان دیندار ہو گا وہ والدین سے اچھا سلوک کرے گا۔ اور جو دین سے ناآشنا اور نابلد ہو گا وہ ماں باپ کو اپنے لئے بوجھ سمجھے گا، والدین سے محبت اور حسن سلوک کرنا تمام انسانوں پر فرض ہے۔اگرچہ والدین مشرک اور غیر مسلم ہوں۔
چنانچہ امام علی رضا علیہ السلام سے مروی ہے کہ:والدین سے احسان و بھلائی کرنا واجب ہے چاہے وہ مشرک ہی کیوں نہ ہوں۔
یہ الگ بات ہے کہ اسلام نے ان کی اطاعت کے حکم کے ساتھ ساتھ ان کی کفر و شرک میں اتباع کرنے سے منع فرمایا ہے جیسا کہ قرآن مجید میں ہے:
ترجمہ:-اگر والدین تمہیں شرک پر اصرار کریں تو انکی بات نہ مانو لیکن ہمیشہ انکے ساتھ نیکی اور احترام سے پیش آو۔ (سورہ لقمان 15)
پس مشرک والدین کی اطاعت کا مطلب صرف یہ ہے کہ ان کی خدمت کی جائے اگر ان کی کوئی ضرورت ہو تو اس کو پورا کیا جائے اور اگر وہ مریض ہو جائیں تو ان کی تیمارداری کی جائے۔ پس ہر انسان پر واجب ہے کہ ہمیشہ اپنے والدین کے ساتھ انکساری سے پیش آئے اگرچہ والدین کافر ہی کیوں نہ ہوں، ممکن ہے کہ اولاد کی نیکی اور خدمت سے متاثر ہو کر غیر مسلم والدین مسلمان ہو جائیں۔
امام صادق سے مروی ایک داستان میں ہے، کہ ایک عیسائی امام کی خدمت میں آیا اور آپ کی ہدایت و نصیحت کی وجہ سے اسلام قبول کیا، پھر اس نے عرض کیا مولا میری ماں ابھی تک عیسائی مذہب پر باقی ہے میں اسکے ساتھ کیسا سلوک کروں؟ تو امام نے فرمایا جب تم عیسائی تھے اس وقت جس طرح ماں کی خدمت کرتے تھے اب اس سے بھی زیادہ ماں سے بہتر سلوک کرو کیونکہ اسلام میں ماں کی عظمت بہت بلند ہے، تو وہ امام کی خدمت سے رخصت ہوا اور آپ کی ہدایت پر عمل کرنے لگا، اور پہلے سے بھی زیادہ ماں کی خدمت کرنے لگا ایک دن اسکی ماں نے پوچھا بیٹا کیا وجہ ہے جب سے تم مسلمان ہوئے ہو تب سے تم میری زیادہ خدمت کر رہے ہو جبکہ ہمارا دین اب مختلف ہے تو اس کے بیٹے نے جواب دیا ماں میرے دین کے پیشوا نے مجھے اس عمل کی تلقین کی ہے، تو ماں نے پوچھا کیا وہ پیغمبر ہیں؟ بیٹے نے جواب دیا نہیں، البتہ فرزند پیغمبر ہیں۔ تو ماں نے کہا یہ تو انبیا کے اخلاق میں سے ہے بیٹا مجھے بھی اپنے دین کے متعلق بتا، تو اس نے اپنی ماں کے سامنے دین اسلام کے احکامات بیان کئے اور اسکی ماں بھی اسی وقت دائرہ اسلام میں داخل ہو گئی۔
تو اس واقعہ سے ہم یہ نتیجہ لے سکتے ہیں کہ اگر کوئی اولاد اپنی محبت اور احساسات کو اپنے کافر یا گناہ گار والدین پر مرکوز کر دے تو اپنے اس عمل کے ذریعے ان کی فکر اور رجحانات کو تبدیل کرکے انہیں صراط مستقیم پر لاسکتی ہے
٭٭٭