امریکہ میں مسلم قیادت کو مین سٹریم میں لانے کے لیے بڑے عرصے سے جدوجہد جاری ہے جس میں اب نمایاں کامیابیاں ملتی نظر آ رہی ہیں ، پرایمری سطح پر مسلم نواجون سیاسی طور پر متحرک نظر آ رہے ہیں جوکہ مستقبل میں اچھے سیاستدان کے طور پر ابھریں گے لیکن اس کے لیے مزید اقدامات کی ضرورت ہے ، مسلم وپاکستانی کمیونٹی کو انفرادی کی بجائے بحیثیت مجموعی اس سلسلے میں کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے ، والدین جو بچوں کو اکثر ڈاکٹر ، انجینئر اور سائنسدان بنانے کے لیے کوشاں رہتے ہیں کو اب اپنے اہداف میں سیاست کو بھی شامل کرنا ہوگا کیونکہ امریکہ میں مسلم اور پاکستانی کمیونٹی کو خود کو منوانے کے لیے اپنی نوجوان قیادت کو آگے لانا ہوگا ۔
امریکہ میں مسلم کمیونٹی کی اکثریت نے صدارتی اور لوکل انتخابات کے دوران ہمیشہ گروپوں کی صورت میں اپنے پسندیدہ امیدواروں کو سپورٹ کیا ہے لیکن اب اس میں بہتری آئی ہے ، مسلم و پاکستانی کمیونٹی بحیثیت مجموعی امیدواروں کو سپورٹ کرتی ہے تاکہ ان کے مسائل کو ترحیحی بنیادوں پر حل کیا جا سکے ، مسلم و پاکستانی تنظیمیں بھی اس سلسلے میں بہترین پلیٹ فارمز مہیا کر رہی ہیں جن میں ڈاکٹر اعجاز کی APPAC سرفہرست ہے ، گزشتہ دو سالوں کے دوران پاکستانی کمیونٹی کو امریکہ کی مین سٹریم قیادت سے روشناس کرانے میں APPAC نے ڈاکٹر اعجاز کی رہنمائی میں کلیدی کردار ادا کیا ہے ۔ پیپلزپارٹی کی پرانی کارکن شمع حیدر بھی اس سلسلے میں کافی متحرک ہیں ،شہید بینظیر بھٹو جب بھی امریکہ آتی تھیں تو شمع حیدر کے پاس ہی قیام کیا کرتی تھیں ، شمع حیدر کا پاکستانی و مسلم کمیونٹی کو سیاست میں طرف متحرک کرنے میں کلیدی کردار ہے ۔ مسلمان امریکیوں کی سیاست میں مزید شرکت کی راہ میں ایک رکاوٹ، انہیں ووٹ ڈالنے پر آمادہ کرنے کا چیلنج ہے۔پیو ریسرچ سینٹر کے اندازے کے مطابق امریکہ میں بچے، بڑے، کل ملا کر 33 لاکھ مسلمان رہتے ہیں لیکن ان میں سے اکثریت ووٹ کاسٹ نہیں کرتی ہے، امریکہ میں مسلمانوں کی تعداد 2050ء کے اختتام تک تقریباً دگنی ہوجائے گی۔ مسلم و پاکستانی کمیونٹی بحیثیت مجموعی اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے لوگوں کو اس طرف راغب کرنا ہوگا تاکہ زیادہ سے زیادہ ووٹ رجسٹرڈ کروا کر اپنی سیاسی طاقت کو منوایا جا سکے ۔اس سلسلے میں مخیر حضرات اور بزنس مینوں کو بھی چاہئے کہ وہ گورے امیدواروں کی بجائے پاکستانی و مسلم امیدواروں کو الیکشن کے لیے سپورٹ کریں ، ان کی اخلاقی ، مالی مدد کریں تاکہ نوجوان قیادت مین سٹریم کی طرف اپنے سفر کا آغاز کرے ۔اگر مسلم اور پاکستانی نوجوان مین سٹریم میں آئیں گے تو وہ اپنی کمیونٹی اور لوگوں کے مسائل کو زیادہ سمجھداری کے ساتھ حل کریں گے ۔
مسلمانوں کی موجودہ تعداد امریکہ کی کل آبادی کا صرف ایک فی صد ہے لیکن اسلام اور مسلمان امریکی صحافت اور سیاست کا ایک مستقل موضوع ہیں۔ ایک جانب جہاں اسلام اور مسلمانوں کو دہشت گردی سے منسلک کرتے ہوئے ان کی امریکہ آمد پر پابندی کے مطالبے ہیں تو دوسری جانب ایسی توانا آوازیں بھی موجود ہیں جو اسلام اور دہشت گردی کو جوڑنے اور مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھنے کی سخت مخالفت کر رہی ہیں۔مسلمان اور اسلام کو دہشت گردی کے ساتھ منسلک کرنے کی کوششوں کا حصہ نہیں بننا چاہیے اور مسلمان اور دیگر اقلیتوں کو درپیش مسائل سامنے لانے چاہئیں۔ اس ضمن میں ریاست کو بھی اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔
2020 انتخابات کی بات کی جائے تو صدارتی انتخابات میں حصہ لینے والے 110 میں سے 57 مسلمان امیدوار کامیاب ہوئے، امریکا کی چوبیس ریاستوں اور واشنگٹن ڈی سی سے 110 مقامی مسلم امیدواروں نے مختلف عہدوں کے لیے انتخاب لڑا، اس سے قبل اتنی بڑی تعداد میں مسلم امیدوار انتخابی میدان میں نظر نہیں آئے تھے۔57 میں سے 7 امیدوار اْن ریاستی عہدوں پر منتخب ہوئے جن پر اس سے قبل کبھی کوئی مسلمان امیدوار کامیاب نہیں ہوا تھا۔موجودہ دور میں بھی لوکل انتخابات میں مسلم نوجوان بڑی تیزی سے سامنے آ رہے ہیں ، بوسٹن ،سنسناٹی اور سیٹل کے لوکل انتخابات میں تینوں مسلم امیدوار کامیاب ہوئے ہیں ، حال ہی میں نیویارک سٹی کونسل سے منتخب ہونے والی پہلی مسلم امیدوار شاہانہ حنیف نے بھی تاریخ رقم کردی ہے ۔اُمید کرتا ہوں کہ آئندہ بھی ہمیں مزید مسلم نوجوان چہرے سیاست میں اُبھرتے دکھائی دیں گے ۔
٭٭٭