بلوچستان دہشتگردی میں بیرونی ہاتھ ملوث

0
18

اسلام آباد (پاکستان نیوز) پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں حالیہ دہشتگردی نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے ، سر عام معصوم جانوں کے ضیاع پر ہر آنکھ اشکبار اور ظالموں کے خاتمے کے لیے بے قرار ہے ، وزیراعظم، آرمی چیف ، وزیر داخلہ سمیت ملک کی تمام قیادت نے دہشتگردوں سے آہنی ہاتھوں نمٹنے کا اعلان کیا ہے ، وزیراعلیٰ بلوچستان نے ناراض بلوچوں کو موقع دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر اب بھی وہ ہتھیار پھینک دیں تو ان سے مذاکرات کے لیے تیار ہیں جبکہ دوسری طرف وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے کہا ہے کہ معصوم انسانوں کو نشانہ بنانے والے ناراض بلوچ نہیں بلکہ دہشتگرد ہیں ، بلوچستان کو ہر گز بنگلہ دیش نہیں بننے دیں گے ، بلوچستان دہشتگردی میں بیرونی ہاتھ ملوث ہے جس کے شواہد موجود ہیں ، بہت جلد عوام کے سامنے بے نقاب کریں گے ۔ 25 اگست کی شب شروع ہونے والے حملوں میں 10 فوجی اہلکاروں سمیت چار درجن سے زائد افراد ہلاک ہوئے ہیں، جس کے بعد بلوچستان حکومت کا کہنا ہے کہ ‘معصوم شہریوں کے قاتلوں سے بدلہ لیا جائے گا، ان حملوں اور سکیورٹی فورسز کی کارروائی کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے بلوچستان کے وزیرِ اعلیٰ سرفراز بگٹی کا کہنا تھا کہ ‘معصوم شہریوں کے قاتلوں سے بدلہ لیا جائے گا اور انھیں قانون کے مطابق قرارواقعی سزا دی جائے گی،ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں شدت پسندوں کے حملے میں 38 شہری ہلاک ہوئے۔خیال رہے بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) کی جانب سے یہ حملے مقبول سیاسی رہنما نواب اکبر بگٹی کی 18ویں برسی کے موقع پر کیے گئے تھے اور کالعدم علیحدگی پسند تنظیم جانب سے ‘آپریشن ھیروف’ کا نام دیا گیا تھا۔کالعدم بی ایل اے کے مطابق بلوچستان کے علاقے لسبیلا میں پاکستانی فوج کے ایک کیمپ پر حملے میں دو خود کش بمباروں نے کارروائی کی، جس میں ایک حملہ آور خاتون تھیں،صوبائی وزیرِ اعلیٰ سرفراز بْگٹی کا کہنا ہے کہ فوج کے کیمپ پر کیے جانے والا حملہ پسپا ہو گیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ‘ان دہشت گردوں نے اپنا حشر لسبیلہ میں دیکھ لیا جہاں سیکورٹی فورسز نے کیمپ کے گیٹ پر شدت پسندوں کو ہلاک کردیا اور ان کے حملے کو ناکام بنا دیا۔اب تک ہونے والے حملوں میں سب سے زیادہ جانی نقصان موسیٰ خیل میں ہوا جہاں مسلح افراد نے پنجاب اور بلوچستان کے درمیان سفر کرنے والی متعدد گاڑیوں کو روک ان سے لوگوں کو اتار کر شناخت کے بعد گولیاں مار کر ہلاک کر دیا۔صوبہ بلوچستان میں بڑھتی ہوئی شدت پسندوں کی کارروائیاں کیا سکیورٹی یا انٹیلی جنس کی ناکامی ہے، پنجاب کے شہریوں کو کیوں نشانہ بنایا جا رہا ہے، کیا صوبے میں حکومت کی رِٹ باقی ہے؟ یہ کچھ ایسے سوالات ہیں جن کے جوابات بی بی سی نے جاننے کی کوشش کی ہے۔پاکستانی تھنک ٹینک پاکستان انسٹٹیوٹ فور کنفلکٹ اینڈ پیس سٹڈیز کے مطابق گذشتہ برس بلوچستان میں کم از کم 170 حملے ہوئے تھے، جس میں 151 عام افراد اور 114 سکیورٹی اہلکار ہلاک ہوئے تھے۔بلوچستان کے وزیرِ اعلیٰ سرفراز بگٹی نے صاف الفاظ میں کسی بڑے آپریشن کا اعلان تو نہیں کیا، لیکن انھوں نے معصوم شہریوں کے قاتلوں سے بدلہ لینے’ کا ضرور اعلان کیا ہے۔دریں اثنا صدر آصف علی زرداری اور وزیر اعظم شہباز شریف سے وزیر داخلہ محسن نقوی اور وزیر اعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے علیحدہ علیحدہ ملاقاتیں کر کے بلوچستان میں سیکیورٹی اور امن و امان کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا۔ وزیر داخلہ محسن نقوی اور وزیر اعلیٰ سرفراز بگٹی نے وزیر اعظم شہباز شریف اور صدر مملکت آصف علی زرداری سے علیحدہ علیحدہ ملاقاتیں کیں۔ملاقات میں صدر مملکت اور وزیر اعظم کو بلوچستان میں حالیہ دہشت گردی کے واقعات پر بریفنگ دی گئی اور صوبے میں قیام امن کے حوالے سے تجاویز پر غور کیا گیا۔بلوچستان کے متعدد اضلاع میں دہشت گرد کارروائیوں کے مقدمات سی ٹی ڈی تھانے میں درج کر لیے گئے ہیں، سی ٹی ڈی ذرائع نے بتایا کہ موسیٰ خیل، بولان، مستونگ، لسبیلہ، قلات سمیت آٹھ واقعات کے مقدمات درج کیے گئے۔مقدمات میں انسداد دہشت گردی، قتل، اقدام قتل اور دیگر دفعات شامل کی گئی ہیں تاہم ان واقعات میں کالعدم تنظیم کی کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی۔واقعے میں جاں بحق افراد کی میتیں شناخت کے بعد ورثا کے حوالے کر دیں اور ان کا ریکارڈ بھی مرتب کیا گیا ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here