18 سالہ افغان جنگ جھوٹ کا پلندہ نکلی :واشنگٹن پوسٹ کا انکشاف

0
87

واشنگٹن (پاکستان نیوز) واشنگٹن پوسٹ کی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ افغانستان میں کئی سالوں سے امریکہ کی ناکامیوں کا سلسلہ جاری تھا اور حکام کو اس بات کا علم بھی تھا کہ ان کی حکمتِ عملی کام نہیں کر رہی ہے لیکن وہ جنگ کی سنہری تصویر پیش کرتے رہے۔اخبار کو حاصل ہونے والی حکومتی خفیہ دستاویزات سے یہ پتا چلتا ہے کہ سینیئر امریکی حکام افغانستان کی جنگ کے بارے میں اپنی 18 سالہ مہم کے دوران حقیقت کے انکشاف میں ناکام رہے اور ایسے سنہری اعلانات کرتے رہے جو انھیں پتا تھا کہ غلط ہیں اور واضح شواہد چھپاتے رہے کہ اس جنگ میں کامیابی نہیں ہو سکتی۔واشنگٹن پوسٹ نے امریکی حکومت کی جنگ پر نظر رکھنے والے ادارے افغانستان کی تعمیر نو کے سپیشل انسپیکٹر جنرل سے ہزاروں صفحات پر مشتمل دستاویزات حاصل کیں جس میں 600 افراد کے انٹرویوز شامل ہیں۔ یہ انکشاف اس وقت سامنے آیا ہے جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور وزارت دفاع پینٹاگون القاعدہ اور دولت اسلامیہ کے خلاف مزید توجہ مرکوز کرنے کے لیے افغانستان میں اپنی فوج میں کمی کرنا چاہتے ہیں اور طالبان کے ساتھ امن معاہدے کے خواہاں ہیں۔اخبار نے لکھا ہے کہ حاصل شدہ دستاویزات امریکی وفاقی پروجیکٹ کا حصہ ہیں جن کا مقصد امریکی تاریخ کی طویل ترین مسلح جنگ میں ناکامی کی اصل وجوہات کی جانچ تھی۔یہ دستاویزات دو ہزار صفحات پر مشتمل ہیں اور ان میں جنگ میں براہ راست شامل افراد بشمول فوجی جرنیلوں، سفارتکاروں، امدادی کارکنوں اور افغان حکام کے غیر مطبوعہ نوٹس اور انٹرویوز شامل ہیں۔امریکہ نے سنہ 2001 میں افغانستان کے خلاف حملہ کیا تھا اور وزارت دفاع کے مطابق اس وقت سے اب تک امریکہ وہاں سات لاکھ 75 ہزار فوجی تعینات کر چکا ہے جن میں بہت سوں کو کئی بار تعینات کیا گیا ہے۔ ان میں سے 2300 فوج کی وہاں ہلاکت ہو گئی جبکہ 20589 فوجی زخمی ہوئے۔ایک تھری سٹار سطح کے جنرل ڈگلس لیوٹ جنھیں صدر جارج ڈبلیو بش کے زمانے میں عراق اور افغانستان میں مرکزی ذمہ داریاں دی گئی تھیں نے سنہ 2015 میں انٹرویو کرنے والوں کو بتایا کہ ہم افغانستان کی بنیادی سمجھ سے لاعلم تھے، ہمیں پتہ نہیں تھا کہ ہم کیا کر رہے ہیں۔اخبار کے مطابق انھوں نے مزید کہا کہ ہم یہاں کیا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں؟ ہمیں اس کا دھندھلا سا بھی اندازہ نہیں تھا کہ ہم کیا کر رہے تھے۔ساری جنگ کے دوران فوجی کمانڈر عوامی سطح پر یہ تاثر دیتے رہے کہ حالات بہتری کی جانب ہیں جبکہ طالبان افغانستان کے وسیع علاقوں پر قبضہ کرتے رہے اور بغیر فضائی جنگی صلاحیت کے امریکی اور افغان فوجیوں کو مارتے رہے تاہم امریکی فوجی سرابراہان نے وقفے وقفے سے جنگ کے متعلق اپنے خدشات کا اظہار کیا ہے بطور خاص اس وقت جب انھیں فوج کی تعداد میں اضافے یا طالبان سے لڑنے کے لیے خاص صلاحیتوں کی ضرورت محسوس ہوئی۔اخبار واشنگٹن پوسٹ نے سابق وزیر دفاع ڈونلڈ رمزفیلڈ کے سنہ 2001 سے 2006 کے درمیان کے میموز تک بھی رسائی حاصل کی۔رمزفیلڈ نے سنہ 2002 کے اپنے ایک میمو میں کہا: ‘ہم افغانستان سے امریکی فوجی کبھی بھی نہیں نکال سکیں گے جب تک کہ ہم وہاں ایسا کچھ نہ کرتے رہیں جس سے وہاں استحکام آئے اور یہ ہمارے وہاں سے نکلنے کے لیے ضروری ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here