قرآن کی بے حرمتی،فیصل آباد میں درجنوں چرچ نذر آتش

0
83

اسلام آباد(پاکستان نیوز) عالمی سطح پر اسلام کے خلاف منافرت بڑھنے سے پورے عالم اسلام میں اضطراب کی کیفیت ہے ، سویڈن اور ڈنمارک میں قرآن کی پے در پے بے حرمتی کے واقعات نے عالم اسلام کو اشتعال میں مبتلا کیا ہے ، پنجاب کے شہر جڑانوالہ میں قرآن کی مبینہ بے حرمتی کیخلاف درجنوں چرچوں کو آگ لگا دی گئی ،چرچوںکے سامان کو نذر آتش کر دیا گیا ، مبینہ مذہبی توہین کے الزام کی زد میں نے والے پادری کی رہائش گاہ کو بھی جلا دیا گیا ،امریکہ سمیت یورپی ممالک میں عیسیائیوں کی مذہبی عبادت گاہوں کو نذر آتش کرنے پر شدید ردعمل سامنے آ یا ہے ، جس کی وجہ سے عالمی سطح پر مذہبی منافرت بڑھنے کے خدشات پیدا ہوگئے ہیں، جڑانوالہ کے پادری عمران بھٹی نے بتایا کہ عیسی نگری میں واقع سیلویشن آرمی چرچ، یونائیٹڈ پریس بیٹیرین چرچ اور شہرون والاچرچ میں توڑ پھوڑ کی گئی، ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ مسیحی جس پر توہین مذہب کا الزام عائد کیا گیا ہے، اس کے گھر کو بھی تباہ کر دیا گیا ہے۔سوشل میڈیا پر منظر عام پر آنے والی تصاویر میں چرچ کی عمارتوں سے دھواں اٹھتا اور لوگوں کو فرنیچر کو آگ لگاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے جبکہ ایک عیسائی قبرستان کے ساتھ ساتھ مقامی حکومت کے دفتر میں بھی توڑ پھوڑ کی گئی، اس کے علاوہ درجنوں افراد نے قریبی ہائی وے کو بھی بلاک کر دیا۔دریں اثنا، پولیس نے پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ295 )بی( اور295)سی(کے تحت ملزم کے خلاف فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) درج کی ہے۔پنجاب کے چیف سیکریٹری کے ترجمان امتیاز الحسن نے بتایا کہ علاقے میں رینجرز کو طلب کر لیا گیا ہے۔پنجاب پولیس کے سربراہ عثمان انور نے بتایا کہ پولیس مظاہرین کے ساتھ مذاکرات کر رہی ہے اور علاقے کا کنٹرول حاصل کر لیا گیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اس علاقے میںپتلی گلیوں میں 2 سے 3 مرلے پر مشتمل چھوٹے گرجا گھر واقع ہیں اور ایک مرکزی چرچ بھی موجود ہے، گرجا گھروں کے کچھ حصوں میں توڑ پھوڑ کی گئی ہے۔حکام نے بتایا کہ امن کمیٹوں کے ساتھ رابطے قائم کر کے صورتحال پر قابو پانے کی کوششیں کی جارہی ہیں اور صوبے بھر میں پولیس کو متحرک کر دیا گیا ہے۔عثمان انور نے مزید بتایا کہ مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والے علاقے کے اسسٹنٹ کمشنر کو بھی محفوظ مقام پر منتقل کر دیا گیا ہے کیونکہ لوگ ان کے خلاف ہو گئے تھے تاہم مسیحی رہنماں نے الزام عائد کیا کہ پولیس خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس (ٹوئٹر) پر جاری بیان میں چرچ آف پاکستان کے صدر بشپ آزاد مارشل نے کہا کہ بائبل کی بے حرمتی کی گئی ہے اور قرآن شریف کی بے حرمتی کے جھوٹے الزامات عائد کرکے مسیحی افراد پر تشدد اور انہیں ہراساں کیا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم انصاف کے لیے دہائی دے رہے ہیں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے کارروائی اور انصاف فراہم کرنے والوں سے تمام شہریوں کی حفاظت کے لیے فوری طور پر مداخلت کرنے کا مطالبہ اور یہ یقین دہانی چاہتے ہیں کہ ہماری جانیں ہماری اس سرزمین پر قیمتی ہیں جس نے ابھی آزادی کی تقریبات منائی ہیں۔بشپ آزاد مارشل نے مزید کہا کہ تمام پادری، بشپس اور لوگ اس واقعے پر نہایت غمگین اور تکلیف میں ہیں۔نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ جڑانوالہ سے آنے والے مناظر دیکھ کر میں ہل گیا ہوں، قانون کی خلاف ورزی اور اقلیتوں کو نشانہ بنانے والوں کے خلاف سخت ترین کارروائی کی جائے گی۔انہوں نے کہا کہ تمام قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مجرموں کو پکڑ کر انصاف کے کٹہرے میں لانے کی ہدایت کی گئی ہے اور حکومت پاکستان اپنے شہریوں کے ساتھ برابری کی بنیاد پر کھڑی ہے۔مسلم لیگ (ن) کے صدر اور سابق وزیراعظم شہباز شریف نے اپنے بیان میں واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ مسیحی برادری نے اپنا خون دے کر پاکستان کے قیام کے لیے ووٹ دیا اور ان کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی۔شہباز شریف نے مطالبہ کیا کہ قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جانی چاہیے کیونکہ نہ تو اسلام اور نہ ہی آئین ایسی کارروائیوں کی اجازت دیتا ہے۔انہوں نے علمائے کرام اور مذہبی رہنماں پر زور دیا کہ وہ ایسے واقعات کی مذمت کریں جو قرآن و سنت کی تعلیمات کے خلاف ہیں۔دوسری جانب ایک ٹوئٹ میں شہباز شریف نے کہا کہ جڑانوالہ میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ افسوسناک اور پریشان کن ہے، کسی بھی مذہب میں تشدد کی کوئی جگہ نہیں ہے اور تمام مذہبی مقامات، کتب اور شخصیات مقدس ہیں اور احترام کی مستحق ہیں۔انہوں نے کہا کہ میں حکومت سے مطالبہ کرتا ہوں کہ مجرموں کے خلاف کارروائی کی جائے اور تمام مکاتب فکر کے علمائے کرام، مشائخ اور مذہبی اسکالرز سے بھی اپیل کرتا ہوں کہ وہ آگے آئیں اور قابل مذمت اقدامات کی مذمت کریں۔ان کا کہنا تھا کہ ایسے پاگل پن کی اجازت نہیں دی جا سکتی اور پاکستان تمام مذہبی اقلیتوں کا ہے۔دریں اثنا، ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے کہا کہ جڑانوالہ میں مسیحی خاندانوں، ان کے گھروں اور عبادت گاہوں پر مشتعل ہجوم کے حملے کی مذمت کی جانی چاہئے۔انہوں نے کہا کہ اس طرح کے حملوں کی تعداد اور اس کی شدت میں حالیہ برسوں میں اضافہ ہوا ہے، ریاست ناصرف اپنی مذہبی اقلیتوں کے تحفظ میں ناکام رہی۔کمیشن نے مطالبہ کیا کہ تشدد کے مرتکب اور اکسانے والوں کی شناخت کر کے انہیں قانون کے مطابق سزا دی جائے۔انہوں نے کہا کہ حکومت کو مذہبی اقلیتوں کی عبادت گاہوں کی حفاظت کے لیے خصوصی پولیس دستوں کی تعداد میں اضافے میں کوئی وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے۔پاکستان مسلم لیگ ن کی ترجمان مریم اورنگزیب نے جڑانوالہ میں چرچ کی بے حرمتی اور مسیحیوں کے گھر جلانے کی شدید مذمت کرتے ہوئے واقعے میں ملوث افراد کے خلاف سخت قانونی کارروائی کا مطالبہ کیا۔انہوں نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ایکس پر پیغام میں کہا کہ پوری قوم کے لیے یہ واقعہ باعث افسوس، قابل مذمت اور باعث ندامت ہے اور پنجاب حکومت واقعے کا فوری نوٹس لے کر قانون ہاتھ میں لینے والوں کو قانون کی گرفت میں لائے۔ان کا کہنا تھا کہ مقامی آبادی کو تحفظ دیا جائے اور جلائے جانے والے چرچ اور گھروں کی بحالی یقینی بنائی جائے۔مریم اورنگزیب نے کہا کہ قیام پاکستان اور دفاع پاکستان میں مسیحی برادری نے اہم کردار ادا کیا اور قومی پرچم میں سفید رنگ اقلیتوں کی نمائندگی کرتا ہے۔سابق وزیر خارجہ اور چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ فیصل آباد کے علاقے جڑانوالہ میں گرجا گھروں پر حملے کے بارے میں سن کر افسوس ہوا۔ان کا کہنا تھا کہ عبادت گاہوں کے تقدس کو پامال کرنا قطعا ناقابل قبول ہے اور انتظامیہ مسیحی برادری اور ان کے گرجا گھروں کی حفاظت کو یقینی بنائے۔سابق وزیر داخلہ اور مسلم لیگ ن کے مرکزی رہنما رانا ثنااللہ نے کہا کہ جڑانوالہ میں آج چرچ پر ہونے والے بزدلانہ حملے کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ مجرموں کو جلد از جلد انصاف کے کٹہرے میں لا کر قانون کو اپنی گرفت میں لایا جائے، انتہا پسندی اور نفرت اسلام کے بنیادی اصولوں کی نفی ہے۔پاکستان تحریک انصاف کی سابق رہنما شیریں مزاری نے واقعے کو شرمناک اور قابل مذمت قرار دیتے ہوئے سوال کیا کہ ہماری مسیحی برادری اور ان کے گرجا گھروں کی حفاظت کرنے والے قانون نافذ کرنے والے ادارے کہاں ہیں؟سابق وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی اور پیپلز پارٹی کی رہنما شیری رحمن نے کہا کہ یہ بہت افسوسناک، خوفناک اور قابل مذمت ہے اور ہم فیصل آباد کے چرچ، عبادت گاہ کے خلاف پرتشدد انتہا پسندی کی اس کارروائی کی بھرپور مذمت کرتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے غیر مسلم شہری برابری کی سطح پر اسی انصاف، تحفظات اور حقوق کے حقدار ہیں جس کے ہم ہم سب حقدار ہیں، ہمارے مذہب، ہمارے آئین میں اس طرح کے پرتشدد استثنی اور کسی بھی کمیونٹی کی مقدسات کی بے حرمتی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔سابق سینیٹر افرسیاب خٹک نے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ مجرموں کو کٹہرے میں لایا جائے۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی ریاست ان لوگوں کی عبادت گاہوں کو سیکیورٹی فراہم کرنے میں ناکام ہو گئی ہے جو اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب کے پیروکار ہیں، مذہب کے نام پر جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کو استثنی دینا انتہا پسندی اور دہشت گردی کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔بلوچستان کے سینیٹر سرفراز بگٹی نے حکومت پنجاب سے گرجا گھروں اور مسیحیوں کی امیدوں کے تحفظ کا مطالبہ کیا۔انہوں نے ایکس پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جڑانوالہ میں جس پاگل پن کا مظاہرہ کیا گیا، ہم بحیثیت پاکستانی اس کی اجازت نہیں دے سکتے، ہمارے لیے اقلیتوں کی طرف ہماری کچھ ذمے داریاں بنتی ہیں اور ہم اس بحران کو مزید ابتر ہونے کی اجازت نہیں دے سکتے۔مذہبی رہنماں نے جڑانوالہ کا دورہ کیا، طاہر اشرفیادھر پاکستان علما کونسل کے چیئرمین حافظ طاہر اشرفی نے کہا کہ صورتحال پر قابو پانے کے لیے مذہبی رہنماں نے جڑانوالہ کا دورہ کیا۔پاکستان علما کونسل اور عالمی بین المذاہب ہم آہنگی کونسل کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ صورتحال پر قابو پانے اور افہام و تفہیم کے ماحول کو فروغ دینے کے لیے مذہبی رہنما عوام سے مسلسل رابطے میں ہیں۔بیان میں کہا گیا کہ پاکستان علما کونسل اور عالمی بین المذاہب ہم آہنگی کونسل کی قیادت نے تمام برادریوں کی عبادت گاہوں اور رہائش گاہوں کی حفاظت کی مشترکہ ذمہ داری پر زور دیا۔انہوں نے یقین دلایا کہ مذہبی مقامات کی حفاظت ناصرف مسلمانوں بلکہ یہ ریاست کی ذمہ داری بھی ہے۔گزشتہ ہفتے ضلع کیچ کے علاقے تربت میں لینگویج سینٹر سے منسلک ایک ٹیچر کو توہین مذہب کے الزام میں نامعلوم افراد نے فائرنگ کر کے قتل کردیا تھا۔رواں سال فروری میں پیش آنے والے اسی طرح کے ایک واقعے میں ننکانہ صاحب میں ایک شخص کو توہین مذہب کے الزام میں قتل کردیا گیا تھا جہاں اس پر الزام تھا کہ اس نے قرآن پاک کی بے حرمتی کی۔سینٹر فار ریسرچ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز سی آر ایس ایس نے اپنی رپورٹ میں بتایا تھا کہ 1947 میں آزادی سے اب تک توہین مذہب کے ایک ہزار 415 الزامات عائد کیے گئے اور مقدمات میں 89 شہریوں کو قتل کیا گیا۔رپورٹ میں کہا گیا کہ 1947 سے 2021 تک توہین مذہب کے الزامات میں 18 خواتین اور 71 مردوں کو ماورائے عدالت قتل کیا گیا، اب تک 107 خواتین اور ایک ہزار 308 مردوں پر توہین مذہب کے الزامات لگائے گئے ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ سال 2011 سے 2021 کے دوران ایک ہزار 287 شہریوں پر توہین مذہب کے الزامات لگائے گئے اور محققین کا ماننا ہے کہ حقیقی تعداد اس سے بھی زیادہ ہوگی کیونکہ توہین مذہب کے تمام کیسز میڈیا پر رپورٹ نہیں کیے جاتے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ 70 فیصد سے زائد کیسز پنجاب میں رپورٹ ہوئے۔توہین مذہب کے قانون کا غلط استعمال عدالت نے غیر قانونی قرار دیا ہے، اس سے قبل اسلام آباد ہائی کورٹ نے قانون سازوں کو تجویز دی تھی کہ موجودہ قانون میں ترمیم کریں تاکہ ایسے افراد جو توہین مذہب کے غلط الزامات لگاتے ہیں انہیں یکساں سزا دی جائے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ توہین مذہب کے قوانین 1860 میں انگریزوں کے دور میں بنائے گئے تھے۔ابتدائی طور پر 1927 میں تعزیرات ہند کے تحت توہین مذہب کے قوانین 295، 296، 297 اور 298 متعارف کروائے گئے، بعد ازاں مسلم کارپینٹر علم الدین کے کیس کے بعد شق 295 میں ایک اور ضمنی شق 295 اے شامل کی گئی۔ابھی حال ہی میں سینیٹ نے ایک بل منظور کیا تھا جس میں قابل احترام و مقدس شخصیات کے خلاف توہین آمیز ریمارکس استعمال کرنے والوں کی سزا میں اضافہ کیا گیا ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان، ازواج مطہرات اور صحابہ کرام اور چاروں خلفائے راشدین کے بارے میں توہین آمیز الفاظ استعمال کرنے والوں کی سزا 3 سال سے بڑھا کر کم از کم 10 سال تک کردی گئی ہے تاہم پیپلز پارٹی نے اس قانون پر تنقید کی تھی اور کہا تھا کہ کسی بھی مذہب کی کسی بھی شکل میں توہین رسالت کو معاف نہیں کیا جا سکتا اور اسے سزا ملنی چاہیے، تاہم بل کے پس پردہ عزائم پر سوالیہ نشان ہے جس سے خدشہ ہے کہ ملک میں صرف فرقہ واریت اور عدم برداشت کو فروغ ملے گا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here