انتہا سندی میں اضافہ بائیڈن کےلئے چیلنج،ملکی سلامتی خطرے میں ڈالنے پر ٹرمپ سزا کے حقدار ہیں: ماہرین کی رائے

0
188

واشنگٹن (پاکستان نیوز) صدر بائیڈن کے لیے نئے چیلنجز نے جنم لینا شروع کر دیا ہے ، اپنے دور اقتدار کے آغاز پر ہی ان کو اندرونی انتہا پسندی کے چیلنج کا سامنا ہے جس سے ملک کی داخلی سلامتی داﺅ پر لگ گئی ہے ، کیپٹل ہل حملے کے بعد ملک میں معاشرتی تقسیم کھل کر سامنے آگئی ہے ، سیکیورٹی اور سیاسی ماہرین نے ملکی سلامتی کے لیے سفید فام انتہا پاپسندوں کیخلاف سخت کارروائی کو وقت کی اہم ضرورت قرار دے دیا ہے ، امریکہ میں 23برس تک دہشتگردی پر تحقیقات کرنےوالے سیکرٹ ایجنسی ایف بی آئی کے سابق اہلکار تھامس او کونور نے بتایا کہ اندرونی انتہا پسند کہیں بھی ہو سکتا ہے ،آپ کے ہمسائے میں بھی ، اس وقت ہمارے اپنے لوگ ہی ہمارے لیے بڑا خطرہ بن گئے ہیں ، ہمیں جائزہ لینا ہوگا کہ آخر وہ کونسے عوامل تھے جنھوں نے ہمیں آج اس مقام پر لا کھڑا کیا ہے ۔سدرن پاورٹی لا سینٹر میں ڈائریکٹر انٹیلی جنس پراجیکٹ سوسان کوک نے بتایا کہ کیپٹل ہل واقعہ نے پوری قوم کو تقسیم کر دیا ہے اور وائٹ سپر میسی کو بہت زیادہ بڑھاوا دیا گیا ہے اور اسی حملے کی وجہ سے وائٹ سپر مسٹ انتہا پسند گروپوں نے لوگوں کو دھڑا دھڑ اپنا ممبر بنانا شروع کر دیا ہے جوکہ خانہ جنگی کی طرف پہلا قدم ہے ، ٹرمپ کے جانے کے بعد یہ خطرہ ٹلا نہیں ہے بلکہ آئندہ وقت میں مزید سنگین صورتحال اختیار کر سکتا ہے ، ایف بی آئی کے سابق سیکشن چیف نے کریگ ایہری نے بتایا کہ جب آپ اس واقعہ کے متعلق سوچتے ہیں تو یہ بہت خوفزدہ کردیتا ہے ، اندرونی طور پر ملک کو خطرے سے دوچار کرنا بہت خوفناک ہے ، ٹھیک ہے آپ کسی سے نفرت کر سکتے ہیں اس کا اظہار بھی کر سکتے ہیں یہ جمہوریت ہے لیکن اس کو انتہا پسندی اور دہشتگردی کا روپ نہیں دیا جا سکتا ہے اور ایف بی آئی کی دو سال قبل جاری کردہ رپورٹ میںواضح طور پر بتایا گیا کہ ملک میں بیرونی دہشتگردی کی بجائے اندرونی دہشتگردی سے زیادہ اموات ہوئی ہیں لیکن یہ بات قابل ذکر ہے کہ اوکلاہاما سٹی بمبار ٹیمودی میوی اور جنوبی کیرولینا کے شوٹر ڈے لین روف نے حکومت کو ہدف بناتے ہوئے دہشتگردانہ کارروائیاں کیں ۔دہشتگردانہ سوچ کے سامنے حفاظتی انتظامات ناکام ہو جاتے ہیں اور ایسا ہی ہمیں نائن الیون کے واقعے میں دیکھنے میں آیا جب ایک دہشتگرد سوچ نے امریکہ میں سینکڑوں بے گناہ افراد کا خون بہایا ، اب واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہونے والی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایسی ہی دہشتگرد سوچ رکھنے والے افراد اور گروپ نے کیپٹل ہل حملے سے قبل کانگریس عمارت کے نقشے ، اندرونی ماڈل کے حوالے سے معلومات اور نقشوں کا جائزہ لیتے رہے اور یہ تمام دہشتگرد گروپ اب پہلے سے زیادہ مضبوط ہو کر سامنے آ رہے ہیں ۔کیپٹل ہل پر حملہ پوری منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا ہے ، انتخابات میں جوبائیڈن کی فتح کے بعد ٹرمپ کے حامیوں اور وائٹ سپرمسٹ گروپوں نے اپنے روابط کو بڑھایا ، سوشل میڈیا پر فیس بک او ر ٹوئیٹر سے اراکین کو متحرک کیا گیا ،تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ سفید فام اکثریتی گروپس نے یہ پیغام بھی سرکولیٹ کیا تھا کہ” اب ہم چھ جنوری کو واشنگٹن ڈی سی میں ملیں گے لاکھوں محب وطن امریکیوں کے ہمراہ“ان انتہا پسند گروپوں میں پراﺅڈ بوائے سرفہرست ہیں جن کا ذکر ٹرمپ نے بھی کیا ، اب صدر بائیڈن پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ملک میں پیدا ہونے والی اس نفرت انگیز سوچ اور مافیا کو ختم کرنے کے لیے سنجیدہ اقدامات اٹھائے اور اگر وہ وائٹ سپر میسی دہشت گردوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے میں ناکام رہے تو امریکہ کی سلامتی کو سخت خطرات لاحق ہو جائیں گے ، اس سلسلے میں سابق صدر ٹرمپ پر دہشتگری اور ملکی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے کا مقدمہ چلا کر سخت سزا دینی چاہئے تاکہ مستقبل میں کوئی بھی امریکہ کی سلامتی کے لیے خطرہ نہ بن سکے ۔

 

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here