سید کاظم رضوی
محترم قارئین آپ کی خدمت میں سید کاظم رضا کا سلام پہنچے امید ہے اس برفانی طوفان اور اس کے نتیجے میں آنی والی تباہ کاریوں سے بچاﺅ کا انتظام آپ نے فرما لیا ہوگا جو لوگ شمالی امریکہ میں رہتے ہیں ان دنوں یخ بستہ ہواﺅں اور شدید موسم سرما کی لپیٹ میں ہیں برف باری اتنی زیادہ ہے کہ روز مرہ کے کاموں میں دشواریاں پیش آرہی ہیں کیونکہ ہمارا موضوع ہی علوم سیارگان اور اس کے عوامل پر روشنی ڈالنا ہے آج آپ کو اس موسمی شدت اور اس کے اثرات دکھ رہے ہیں۔
اصل میں دیکھا جائے تو یہ موسم بھی جس طرح جنم لیتا ہے وہ ستاروں کی گردش ہی ہے اسی طرح بارش ہونا اور دیگر موسمی عوامل کو باریکی میں غور کیا جائے تو گردش سیارگان کی معینہ حرکت کے نتیجے میں یہ موسم پیدا ہوتے ہیں اور اس کے پیچھے سورج کی روشنی کا بڑا عمل دخل ہے جب شمسی تواناءروشنی کی لہریں زمین کی گہراءمیں موجود سمندر و دریا کے پانی کی سطح سے ٹکراتی ہی تو اس کو بھاپ میں بدل دیتی ہیں یہی بھاپ بلندی پر جاکر پہاڑوں سے ٹکرا کر سرد ہوکر جب قطروں کی شکل اختیار کرے تو بارش اور جب سرد ہوکر جم جائے تو اولے یا برف کی شکل میں واپس زمین کی طرف جاتی ہے اور حیات نوع کا سبب بھی ہے قدرت نے یہ سب انتظام انسان اور کرہ ارض پر رہنے والے جانداروں کی افزائش اور خوراک کی خاطر یہ تمام انتظام کیئے ہیں اب پانی جتنا زمین میں جزب ہوا اتنا ہوگا لیکن باقی بہتا ہوا گھروں کی چھتوں ندی نالوں سے پھر سمندر میں اختتام پذیر ہوگا !!
یہ بھی قدرت کا ایک نظام ہے کہ برف کی شکل میں پانی زخیرہ رہے اور میٹھے پانی کا ایک بڑا ذخیرہ برف کی شکل میں موجود ہے جو دھیرے دھیرے پگھل کر زمین کی زرخیزی اور انسانی ضروریات پورا کرتا ہوا اپنا چکر پورا کرتا ہے دنیا میں بہت سے وائرس بھی اس درجہ حرارت کے اتار چڑھاﺅ کی وجہ سے ھلاک ہوجاتے ہیں اگر یہ موسمی شدت نہ ہو تو انسان کو سوائے ویکسین بنانے کے کسی اور کام کی فرصت نہ ہو نہ صرف انسان بلکہ دنیا کے ایکا لوجیکل بیلنس کیلئے یہ موسم انتہاءسازگار حالات فراہم کرتا ہے چرند و پرند کی دنیا میں بین البراعظمی ھجرتیں جو جاری رہتی ہیں اور انکی بقاء کو زریعہ ہیں اگر یہ موسم نہ ہوتے تو ایسا نہ ہوتا اور نقصان دہ حشرات و کیڑے انسان کی زندگی اجیرن کردیتے !!
جب بھی انسانی سوچ مثبت انداز میں ڈھلی اور اس کے خیالات نے اس کے دماغ کو جھنجھوڑا تو ایک ہی بات جو اس کو زحمت دکھ رہی تھی وہی اگلے لمحے اس کو رحمت نظر آءنہ جانے کتنے دنیا کے بھید ہیں جو کھل چکے ہیں اور کتنے ہی ایسے ہیں جن کا کھلنا ابھی باقی ہے ایسے میں انسان اپنی علمی ارتقاءمراحل اور جدید سائنسی علوم سے ان بھیدوں کو پانے میں مگن ہے اور ایک ایسی جگہ قیام چاھتا ہے جہاں دنیا اس کے اور اس کے خاندان کیلئے ایک سہولت اور آرام و آسائش کی جگہ ہو اور کافی حد تک اس میں کامیاب بھی رہا ہے بس اس کی ایک فطرت کہ خوب سے خوب تر کی تلاش اس کو کہیں چین سے نہیں بیٹھنے دیتی اور وہ دن رات معاشی خوشحالی اور مادی چیزوں کے حصول کیلئے سرگرداں نظر آتا ہے اس بات سے بالکل بے خبر کہ ایک دن اس کو اس دنیا سے رخصت ہوجانا ہے ہمارے کتنے ہی پیارے جاننے والے کل تک ہمارے درمیان تھے آج نہیں ہیں اللہ ان سب کی مغفرت فرمائے اور جو پردیسی ہم وطن اور کلمہ گو اپنوں سے دور آکر ایک وطن میں آ بسے ہیں ان کو اللہ پاک اپنی حفاظت میں اور امان میں رکھے جبکہ انکے ترک وطن کے اغراض و مقاصد با خوبی پورے ہوں روزانہ خبریں دیکھ کر اور بڑی تعداد میں تشویشناک خبریں پڑھ کر طبیعت اور دل عجیب ہوچکا ہے، آپ سب سے درخواست ہے جب بھی نماز ادا فرمائیں اپنے بچھڑ جانے والے بہن بھائیوں اور ہم وطنوں کیلئے دعا ضرور فرمائیں کہ دعا ہی ہمارا سہارا ہے اور اللہ کو یاد کرنا اپنے گناہوں سے معافی اور لوگوں کو معاف کردینا بے شک بھلاءکا راستہ ہے اور اس وقت کی شدید ترین ضرورت بھی خیر اس کے ساتھ ہی ایک اور بے ربط کالم لیکن کام کی بنیادی باتوں اور تمہید کے اختتام پر آپ سے ایک ہفتے کی اجازت چاہوں گا اپنی دعاﺅں میں یاد رکھئے گا۔
٭٭٭