محترم قارئین کرام آپکی خدمت میں سید کاظم رضا کا سلام پہنچے یوں تو ہمارے ملک میں ہزارہا طرح کے مسائل ہیں جبکہ انکا حل بھی کچھ لوگ پیش کرتے نظر آتے ہیں جہاں مسائل کا تزکرہ کیا جائے تو ایک سنجیدہ لکھا پڑھا طبقہ اس بات پر متفق نظر آتا ہے کہ ملک میں قانون کی عملداری ختم ہوچکی ہے اسکا نقصان عام شھری کو ہورہا ہے اس قانون کو مذھبی طبقہ اور اعلی تعلیم یافتہ طبقہ مذہبی اور برطانوی (انگریزی) قانون میں تقسیم کرتا اور اس پر سیاست کرتا نظر آتا ہے اب اس بحث سے درکنار قانون وہ ہے جس پر عمل کیا جائے اور وہ مذہبی ہو یا انسانوں کا بنایا ہوا ایک اصول و ضابطہ پر پابندی پر عمل انسانوں کے فائدے کیلئے ہی ہے جس سے انحراف جرمانے و سزا کی شکل میں بھی سامنے آتا ہے آج آپ کو سعودی شاہی خاندان میں وقوع پذیر ہونے والے ایک واقعے اور قانون پر عمل درآمد اس پر سیاست کے گرد گھومتی دلچسپ کہانی پیش کی جاتی ہے، امید ہے قارئین کو پسند آئیگی ،یہ منقول ہے اور انٹرنیٹ پر موجود ہے لیکن انتہائی سبق آموز جس کو پڑھنے کے بعد محسوس ہوگا سعودیہ سنہ میں کہاں تھا اور ہم کب اور اب کہاں ہیں ؟کہانی اب آپ پڑھیئے اور اپنی رائے کا اظہار فرمائیں ۔19 سالہ سعودی شہزادی کی افسوسناک کہانی:یہ کہانی کچھ ممالک میں زندگی کی حقیقت کو پیش کرتی ہے جس کے بارے میں آپ کو اس وقت تک معلوم نہیں ہوگا جب تک کہ آپ اس پر تحقیق نہ کریں۔19 سالہ سعودی شہزادی کی کہانی:مشعال بنت فہد آل سعود، عرب شہزادی جو خاص طور پر 1960 کی دہائی میں پیدا ہونے والوں کیلئے انجان نہیں۔ اتنے عظیم ملک کی شہزادی بننا جتنا اچھا لگتا ہے۔ اتنی ہی بھاری قیمت بھی چکانی پڑتی ہے۔ جس سے زیادہ تر لوگ بے خبر ہیں۔آج کی تحریر ان لوگوں کے لیے جو مشعال کی کہانی سے ناواقف ہیں۔ وہ سعودی عرب کی انیس سالہ شہزادی تھیں جن کا تعلق براہ راست شاہی خاندان سے تھا۔ شاہی خاندان کا رکن ہونے کے ناطے یہ ضروری ہوتا ہے کہ آپ اپنے وقار کو ملحوظ خاطر رکھیں اور آپ ہر کسی کے ساتھ بات چیت نہیں کرسکتے ہیں۔ بشمول وہ شخص جس سے آپ شادی کرنا چاہتے ہیں۔کچھ ممالک میں کوئی بھی شخص قانون کے آہنی پنجے سے مستثنی نہیں ہے۔ چاہے وہ شاہی خاندان سے ہی کیوں نہ ہو۔ خاص کر جب تعلقات کی بات آتی ہے تو شاہی خاندان کے ارکان کو انتہائی احتیاط برتنے کی ہدایات ہوتی ہیں۔مشعال اس وقت کے سعودی عرب کے بادشاہ خالد بن عبدالعزیز کے بھائی محمد بن عبدالعزیز کی بیٹی تھی۔شاہی خاندان کے رکن کے طور پر جیون ساتھی کا انتخاب اس شخص کے رشتہ داروں میں سے ہوتا جو عام طور پر قریبی کزن ہوتے ہیں۔ مشعال جو پہلے ہی اس قسم کے معاشرے کی پرستار نہیں تھی۔ بیرون ملک تعلیم کے دوران اسے ایک ایسے شخص سے محبت ہو گئی جو شاہی خاندان سے نہیں تھا۔ وہ بھی ایک طالب علم تھا۔لبنان کی ایک یونیورسٹی میں پڑھتے ہوئے اسے ایک لبنانی مرد سے محبت ہو گئی تھی اور وہ اس کے نتیجے میں ہونے والی مشکلات سے بخوبی واقف تھی لیکن وہ اس شخص کے بارے اپنے احساسات کا کچھ نہیں کر سکتی تھی۔ کسی کے ساتھ محبت ہونا ایک فطری امر ہے۔
وہ جانتے تھے اس طرح کے تعلقات غیر قانونی ہیں لیکن وہ دونوں اپنے راستے میں آنے والی ہر چیز کا سامنا کرنے کے لیے تیار تھے۔ اگرچہ اس کا بوائے فرینڈ، خالد الشاہر ملالال، ایک سعودی سفیر کا بیٹا تھا مقامی قوانین کے تحت یہ تعلقات غیر قانونی تھے۔دونوں کے پاس اپنے آپ کو بچانے کا واحد طریقہ یہ تھا کہ وہ اپنے ملک سے فرار ہو جائیں اور کسی دوسرے ملک میں پناہ حاصل کریں جہاں ایسے تعلقات پر کوئی قوانین لاگو نہیں ہوتے تاہم، اس سے پہلے کہ وہ ملک چھوڑ سکتے، دونوں کو ہوائی اڈے پر حکام نے گرفتار کر لیا۔ ایسے جرم کی سزا صرف موت تھی۔
ان دونوں کو ملک سے فرار ہونے کی کوشش میں پکڑے جانے کے بعد ان کو قانون کے مطابق سزا دی جانی تھی جو کہ سزائے موت تھی۔ سزا میں کمی کا امکان تبھی ممکن تھا اگر وہ الزامات کو مسترد کرتے ہیں،دونوں پر ناجائز تعلقات کا الزام لگایا گیا تھا اگر شہزادی خود اپنے تعلقات کا اقرار کرتی تو اس کے والدین بھی اسے قانون کے قہر سے نہیں بچا سکتے تھے۔ اسی لیے والدین نے اپنی بیٹی کو ایسا خوفناک اعتراف کرنے سے روکنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی لیکن حیرانی کی بات یہ ہے کہ ان کی 19 سالہ بیٹی نے سرعام اپنے تعلقات کا اعتراف کیا اور پھر اس کے والدین بھی اسے بچا نہ سکے۔مشعال کے والدین 15 جولائی 1977 کو کبھی نہیں بھولیں گے جب انہوں نے اپنی بیٹی کو سرعام سزائے موت ہوتی دیکھی۔ اس سے بھی زیادہ دل دہلا دینے والی حقیقت یہ تھی کہ مشعال کے دادا ہی تھے جنہوں نے اپنی پوتی کے لئے سزائے موت حکم دیا تھا۔بوائے فرینڈ کو بھی اسی طرح قتل کر دیا گیا اور دونوں کی داستان وہیں اپنے اختتام کو پہنچی گئی۔شہزادی کی موت پر ایک دستاویزی فلم بھی بنائی گئی۔ جس کے لئے فلم پروڈیوسر انٹونی تھامس سعودی عرب آیا اور شہزادی کی کہانی کے بارے میں متعدد لوگوں سے انٹرویوز کئے۔ اس کی ملاقات متضاد کہانیوں سے ہوئی۔ جو بعد میں ایک برطانوی دستاویزی فلم، ڈیتھ آف اے پرنسس کا موضوع بن گئی۔
یہ فلم 9 اپریل 1980 کو آئی ٹی وی ٹیلی ویژن نیٹ ورک پر اور پھر ایک ماہ بعد عوامی ٹیلی ویژن نیٹ ورک پی بی ایس پر دکھائی جانے والی تھی۔ دونوں نشریات پر شدید احتجاج کیا گیا جس کے بعد سعودیوں کی جانب سے ان نشریات کو منسوخ کرنے کے لیے سخت سفارتی، اقتصادی اور سیاسی دبا ڈالا گیا۔ برطانوی نشریات کی منسوخی میں ناکامی کے بعد خالد بن عبدالعزیز آل سعود نے برطانوی سفیر کو سعودی عرب سے نکال دیا تھا،ملتے ہیں اگلے ہفتے کسی نئے تجزئیے و کہانی کے ساتھ۔
٭٭٭