طاہر حنفی کشت کرب و اضطراب!!!

0
20
ڈاکٹر مقصود جعفری
ڈاکٹر مقصود جعفری

طاہر حنفی کی شاعری کی تین کتابیں موصول ہوئیں جن کے مطالعہ سے نہ صرف لطف اندوز ہوا بلکہ اسیرِ بندِسوز بھی ہوا۔ شہرِ نارسا، گونگی ہجرت اور خانہ بدوش آنکھیں اردو شاعری میں قابلِ قدر اضافہ ہیں۔ طاہر حنفی میرے دوست ہیں اور یہ یہ نصف صدی کا قصہ ہے ،دو چار برس کی بات نہیں ،وہ قومی اسمبلی سیکریٹریٹ کی ملازمت سے ایڈیشنل سیکریٹری کے عہدہ سے ریٹائر ہوئے ہیں۔ بنیادی طور پر وہ صحافی اور شاعر ہیں۔ اِن کے کلام میں کربِ آگہی کی شدت ہے۔ مرزا غالب نے کہا تھا اے روشنء طبع تو بر من بلا شدی، ان کتابوں میں غزلیں اور نظمیں ہیں۔ طرزِ بیان میں روایتی انداز کی چاشنی اور شیرینی اور فکر و نظر میں جدت اور حدت ہے۔ بقولِ علامہ اقبال :
جہانِ تازہ کی افکارِ تازہ سے ہے نمود
کہ سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا
طاہر حنفی کی شاعری صحرا میں ہوا کا تازہ جھونکا ہے، تازگی اور شادابی ان کی زمینِ فکر کی خصوصیات ہیں۔ خانہ بدوش آنکھیں در اصل آنکھوں کی ہجرت ہے جو قریہ بہ قریہ اور ملک بہ ملک جائزہ لیتی ہیں ۔ دید بینا ہیں۔ گرم و سردِ جہاں چشیدہ ہیں۔ بر لوحِ وجدان خطِ کشیدہ ہیں۔ ان کی شاعری وجدان و عرفان و ایقان کی آئینہ دار ہے۔ ان کی ایک غزل کی ردیف خانہ بدوش آنکھیں ہے ،اِسی غزل کی ردیف سے کتاب کا عنوان لیا ہے۔ ان کا شعر ہے!
اشکوں کے نام پر اب تسبیح کے ہیں دانے
موتی پرو رہی ہیں خانہ بدوش آنکھیں
یہی تسبیح کے دانے اشکوں کے موتی ہیں۔ علامہ اقبال نے کہا تھا!
مری صراحی سے قطرہ قطرہ مئے حوادث ٹپک رہی ہے
میں اپنی تسبیحِ روز و شب کا شمار کرتا ہوں دانہ دانہ
طاہر حنفی کہتے ہیں
رتجگے آنکھ میں اترتے ہیں
آنکھ اب رتجگوں میں رہتی ہے
طاہر حنفی کا کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں
ان ہی ہاتھوں سے خود کشی کر لی
زندگی کی لکیر تھی جن میں
دل کسی سانحے سے ڈرتا ہے
آئینہ آئینے سے ڈرتا ہے
بازار میں تھی ہنستے چراغوں کی روشنی
بجھتے ہوئے دیے کا دھواں میرے گھر میں تھا
لاکھوں دنوں کے بوجھ تلے غم رسیدہ لوگ
اپنی تلاش میں ہیں رواں سر بریدہ لوگ
مشتے از خروارے کے طور پر چند اشعار درج کیے ہیں۔ طاہر حنفی کی شاعری روایت اور جدت کا سنگم ہے۔ دردِ ہجراں اور دردِ انساں کی حکایت ہے۔ عصرِ حاضر کا شعور، وجدان کا سرور کوہِ طور ہے۔ علاماتی اور استعاراتی پردوں میںپنہاں سماجی، سیاسی اور معاشرتی بد اعتدالیوں، فتنہ پردازیوں اور زیادتیوں پر شدید صدائے احتجاج ہے۔ ان کی طبعِ رسا میں سیمابی اضطراب اور دلِ بیتاب کی جولانیاں اور ضوفشانیاں جلوہ ریز ہیں ۔ ان کی ادبی خدمات تاریخِ ادب میں زندہ و پایندہ ہیں۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here