اِس سے قبل پاکستان کے وزیرخارجہ اسحاق ڈار اپنے دورہ بنگلہ دیش میں وہاں کی حکومت سے کسی ٹھوس و جامع معاہدے پر دستخط کریں وہاں کے ایک نیم سرکاری اخبار ”دی ڈیلی اسٹار ” نے معاہدے کی شرائط کو اپنے اداریہ میں شائع کر دیا ہے، مندرجہ ذیل شرائط سے وہاں کی حکومت نے پاکستان کو پہلے بھی آگاہ کردیا تھا، یہ ایک اور بات ہے کہ بنگلہ دیش میں حکومت کی تبدیلی اُس کی پاکستان سے تعلقات کی بنیاد میں کوئی خاص تبدیلی نہیں لائی ہے۔ موجودہ حکومت بھی اُن ہی باتوں کی رٹ لگارہی ہے جو سابقہ وزیراعظم شیخ حسینہ لگایا کرتی تھیں، گزشتہ ماہ ایک سرکاری وفد پاکستان کی وزارت خارجہ کی سیکرٹری امینہ بلوچ کی سربراہی میں بنگلہ دیش کا دورہ کیا تھاجس میں جہاں وزیر خارجہ اسحاق ڈار کے دورے کی مصروفیات کی منظوری دی گئی تھی وہاں اِس بات کا عندیہ بھی دیا گیا تھا کہ وزیرخارجہ اسحاق ڈار کا دورہ بنگلہ دیش سے اِن دونوں ممالک کے تعلقات میں ایک نئے باب کا اضافہ کریگا۔دونوں ممالک افہام و تفہیم کے ذریعہ اپنے اختلافات کو دور کرنے کی کوشش کرینگے اگرچہ مجوزہ دورہ پاک بھارت کے تعلقات میں اچانک کشیدگی کی وجہ کر التوا کا شکار ہوگیا ہے ، اور اب یہ کہاں اور کب ہوگا اِس کی پیش گوئی کرنا قبل از وقت ہے،بہرکیف توقع یہ تھی کہ وزیر خارجہ اسحاق ڈار اپنے دورہ میں ڈھاکا کے شہرہ آفاق سیاسی رہنماؤں سے ملاقات کرکے دونوں ملک کے مابین تعاون کی نئی راہیں جن میں تجارت، معاشی ربط و ضبط، دفاع، سیکیورٹی اور عوامی تعلقات کو فروغ دینے کے اوپر ٹھوس مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کرینگے،وزارت خارجہ کی سیکرٹری آمینہ بلوچ کے ساتھ میٹنگ میں بنگلہ دیشی ڈپلومیٹس نے جو مطالبات پیش کئے ہیں اُن میں پاکستان سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ بنگلہ دیش کو ساڑھے چار کروڑ ڈالر کی ادائیگی جو 1971ء کی جنگ سے قبل اُس کے اثاثے اور واجب الادا تھے ادا کرے۔ دوسرے مطالبہ میں بنگلہ دیش نے مطالبہ کیا کہ پاکستان سرکاری طور پر بنگلہ دیش سے اُس کی جنگ آزادی کے دوران قتل عام کرنے پر غیر مشروط طور پر معافی مانگے، بنگلہ دیش کی حکومت نے حکومت پاکستان سے یہ بھی درخواست کی کہ وہ محصورین بنگلہ دیش کو پاکستان واپس لے جانے کے سلسلے میں فوری طور پر کوئی اقدام عمل میں لائے،پاکستان کے وفد نے گفت وشنید جاری رکھنے پر اپنی خواہش کا اظہار کیا۔ بنگلہ دیش کی حکومت نے رقم کی ادائیگی کے ضمن میں اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے اور کہا کہ وہ جانتی ہے کہ ماہ رواں تک پاکستان کے ریزرو فنڈز میں صرف 16 بلین ڈالر کی رقم موجود ہے ، اور اگر پاکستان نے اُس میں سے 4.52 بلین ڈالر کی رقم بنگلہ دیش کو ادا کر دے گا تو یہ اُس کیلئے زبردست مالی دشواری کا پیش خیمہ بن سکتا ہے، اِسلئے بنگلہ دیش کی حکومت کو اِس ضمن میں صبر وتحمل کا مظاہرہ کرنا ہے۔مطالبات کے ساتھ ساتھ بنگلہ دیش کی حکومت پاکستان کے بارے میں اپنے ادراک کی بھی ترجمانی کی اور کہا کہ 1971 ء سے قبل تک پاکستان کا کردار انتہائی مشکوک اور زخم خنداں رہا ہے اور جس کے مندمل ہونے تک پاکستان و بنگلہ دیش کے تعلقات مستحکم نہیں ہوسکتے ہیں، ٹھیک ہے پاکستانی فوج کے ہاتھوں کتنے بنگلہ دیشیوں کی نسل کشی ہوئی تھی یہ ایک امر مباحصہ طلب ہے لیکن جبر و تشدد اور ظلم و زیادتی سے جس طرح اُنکا واسطہ پڑا تھا وہ تاریخ کا ایک حصہ ہے، بنگلہ دیشی ترجمان نے کہاراقم الحروف کی رائے میں اگر اِس سلسلے میں کسی تیسرے فریق کو بحیثیت ثالثی مقرر کردیا جائے تو مسئلہ کا باآسانی حل نکل سکتا ہے، کیونکہ ماضی میں بنگلہ دیش کے میڈیا نے جو اعداد و شمار پیش کئے تھے وہ مبالغہ آرائی پر مبنی تھے، خود بھارت سے تعلق رکھنے والے صحافی اور مصنف نے اِس خیال کا اظہار کیا ہے کہ بنگلہ دیش کی حکومت اور میڈیا حقائق کو صحیح طور پر پیش کرنے میں سچائی کا پردہ پوشی کر رہی ہے۔ بنگلہ دیش کی حکومت اور میڈیا اِس حقائق کو بھی نظر انداز کر رہی ہے کہ بنگلہ دیش کی آزادی جنگ کے دوران ہزاروں کی تعداد میں غیر بنگالی مکتی باہنی کے ہاتھوں منظم طور پر قتل کئے گئے تھے، اُن میں سے بیشتر وہ ملازمین تھے جنہوں نے تقسیم ہند کے بعد وہاں کے ریلوے کے نظام کو سنبھالا تھا،اگرچہ بنگلہ دیش کی عوام کا سب سے اہم مسئلہ پاکستان کی حکومت کی معافی مانگنے کا ہے بلکہ وہاں کی حکومت کا اصرار یہ بھی ہوسکتا ہے کہ معافی نامہ کے مضمون کو وہ خود تحریر کرے گی اور حکومت پاکستان سے صرف اُس کی منظوری لی جائیگی۔
لیکن اُس کے ساتھ ساتھ دونوں ممالک کی حکومتیں تجارت و معاشی تعاون کو تعلقات کا ایک اہم عنصر قرار دیتی ہیں، گزشتہ سال کے اواخر تک بنگلہ دیش کا پاکستان کو ایکسپورٹ 62 ملین ڈالر تھا جبکہ پاکستان نے بنگلہ دیش کو اُسی سال کے دوران 627.8 ملین ڈالر کے مال و اسباب ایکسپورٹ کئے تھے،اِن اعداد و شمار کو دیکھ کر اندازہ یہی ہوتا ہے کہ دونوں ملکوں کے مابین تجارت میں بہت زیادہ عدم توازن موجود ہے ، اور بنگلہ دیش کی حکومت اُسے ختم کرنے کی خواہشمند ہے حالانکہ بھارت اور چین کے مقابلے میں فرق پھر بھی بہت کم ہے، بھارت نے اُسی 2024 ء سال میں اگیارہ بلین ڈالر بنگلہ دیش کو ایکسپورٹ کئے تھے۔ بنگلہ دیش پاکستان کو اپنے گارمنٹ انڈسٹری کیلئے آؤٹ سورسنگ کا ایک مرکز بنانا چاہتا ہے جو دونوں ممالک کی دوستی کو فروغ دینے میں ایک اہم کردار ادا کرے گا۔