بھارت کا کوئی دوست نہیں!!!

0
776
حیدر علی
حیدر علی

بھارتی کابینہ کا اجلاس جاری تھا،وہاں کے ایک اہم وزیر امیت شاہ جن کے پاس وزارت داخلہ کا قلمدان ہے بول پڑے، اُنہوں نے وزیراعظم نریندر مودی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ گرو جی! آخر کیا وجہ ہے کہ بھارت ماتا کے سارے دوست ممالک جن کی ہم صبح و شام مدد کرتے رہتے ہیں ، جنہیں ہم ہر موقع پر جب بھی وہ اپنی قمیض کا دامن پھیلاتے ہیں دان دے دیتے ہیں ، لیکن جب ہم پر دشمن کا حملہ ہوا، ہمیں چھٹی کا دودھ یاد آگیا، ہم حواس باختہ ہوگئے ، ہماری طبعیت خراب ہوگئی ، ہمیں بار بار واش روم جانا پڑا ، لیکن وہ ہمارے نام نہاد دوست ممالک ہماری مدد کیلئے نہیں آئے، وزیراعظم نریندر مودی نے بھارت کے وزیرخارجہ جے شنکر کو یہ حکم دیا کہ وہ بنگلہ دیش کے چیف ایڈوائزر پروفیسر محمد یونس کو کال کرکے دریافت کریں کہ اُن کا ملک کیوں نہیں بھارت کی مدد کیلئے آیا جبکہ بھارت نے بنگلہ دیش کی آزادی کیلئے تن من دھن کو داؤ پر لگا دیا تھا،جے شنکر نے فورا”اُن کے حکم کی تعمیل کی،” ہِلسا مچھلی کی قیمت کیسی جارہی ہے، بہت دِن ہوئے اُسے کھائے ہوئے، شیخ حسینہ جب ہوا کرتی تھیں تو اُس کا مزا چکھا کرتا تھا، ” جے شنکر نے گفتگو کی تمہید باندھی،”بھارتیوں کیلئے نو ہِلسا ماچھ، تروئی ، کدّو اور آلو کی بھاجی اُن کا مقدر ہے، جے شنکر صاحب آپ نے کی بنگلہ بولتے پارین؟” محمد یونس نے اُن کا جواب دیا، ” بس ٹوٹی پھوٹی بول سکتا ہوں، میری سات نسل دہلی کی رچی بسی ہے، میں اُردو بول سکتا ہوں، جو آپ کے بنگلہ دیش کی قومی زبان ہوا کرتی تھی” جے شنکر نے جواب دیا،” بنگلہ بھاشا جُنّے اے کھانے اُنیک گنُڈو گول ہوے چھیلے . نو پروبلم آپ نے اُردو تے کتھا بولین ” ”ٹھیک ہے ہندی بولتے ہوئے مجھے کچھ احساس کمتری ہوتی ہے، در حقیقت گرو نریندر مودی نے دریافت کیا ہے کہ آپ کا ملک جنگ کے دوران اُس کی مدد کیلئے کیوں نہیں آیا، جبکہ بھارت کے بنگلہ دیش پر بڑے احسانات ہیں ” جے شنکر نے کہا، ” کیا احسانات ہیں جبکہ بنگلہ دیش میں بھارت سے آئی ہوئی تمام چیزوں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں، ایک انڈا بیس ٹکا کا مل رہا ہے، میں تو سمجھتا ہوں کہ یہ میری حکومت کے خلاف ایک سازش ہے، آپ کا ملک ہے یا کوئی جانوروں کی چراہ گاہ، ہمیشہ اِس کا کوئی تنازع کسی نہ کسی ملک سے چلتا رہتا ہے، پاکستان سے کشمیر کا تنازع ختم نہیں ہوا کہ چین سے تبت کے علاقوں کا تنازع شروع ہوگیا، بنگلہ دیش آسام کو اپنے ملک کا حصہ قرار دینے کیلئے انتظار کر رہا ہے، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہر چھوٹی چھوٹی قوموں کی زمینوں کو ہتھیا کر یہ ملک بھارت ماتا بن گیا ہے اور پھر آپ کا ملک اُن بنگلہ دیشیوں کو بلا وجہ گولیوں کا نشانہ بنا رہا ہے جو غلطی سے سرحد پار کرکے بھارت میں داخل ہوجاتے ہیں، سینکڑوں کی تعداد میں مائیگرنٹس کو بنگلہ دیش میں روزانہ دھکیلا جا رہا ہے جبکہ اُن کی شناخت کا کوئی اتا پتا نہیں کہ آیا وہ بنگلہ دیشی ہیں یا روہنگیا کے ریفوجی اور پھر آپ یہ پوچھ رہے ہیں کہ بنگلہ دیش نے بھارت کا ساتھ کیوں نہیں دیا، ہم گدھے گھوڑے کا ساتھ دے سکتے ہیں لیکن بھارت کا نہیں، جائیے مودی کو کہہ دیجئے کہ بنگلہ دیش کے عوام خود فیصلہ کرینگے کہ اُنہیں پاکستان کا ساتھ دینا ہے یا بھارت کا ”وزیراعظم نریندر مودی نے کوئی موقع ضائع نہیں کیااور نیپال کے وزیراعظم کے پی شرما سے گفتگو شروع کردی”کیا ہوا آپ کو اور آپ کی حکومت کو ؟ بھارت ماتا پر آسمان ٹوٹ پڑا اور آپ نے ہماری حمایت کیلئے ایک لفظ بھی نہیں کہا؟” ” سرجی وہ دما دم کی آواز ہمیں بھی سنائی دے رہی تھی ہم خوفزدہ ہوگئے تھے، اِس لئے رضائی کے اندر جاکر سوگئے تھے اُدھر تبت سے دھماکے کی آواز ، دوسری جانب بنگلہ دیش سے دھماکے کی آواز اور پھر کشمیر سے وہی دھماکے کی آواز نے ہماری جان کو جھونکوں میں ڈال دیا ہے، ہمارے پیر تھر تھرا رہے تھے، آخر کیا وجہ تھی آپ نے جنگ شروع کردی ، اور اپنے پیر پر کلہاڑی مار دیا؟”نیپال کے وزیراعظم کے پی شرما نے کہا ”ہمیں دوسرے ممالک کو بتانا تھا کہ ہم ایک بہت طاقتور ملک ہیں” نریندر مودی نے جواب دیا” لیکن ہم نے تو سنا ہے کہ آپ کی ہوائی فوج کا تختہ ہوگیا، سارے جہاز ٹوٹے پھوٹے سرحدوں پر پڑے ہیں، یہ تو بڑی شکست ہوگئی بھارت ماتا کی، ہم نے اپنی پیدل فوج کو ہمالیہ کی چوٹی پر تربیت کیلئے بھیج دیا ہے ، تاکہ وہ اِس عذاب جان سے بچے رہیں”
” ٹھیک ہے تو پھر آج سے ہمارے تعلقات نہیں رہے” مودی جی نے غصے میں فون ہینگ اپ کردیا”
بھوٹان جسے لوگ بھارت کا حصہ سمجھتے ہیںاُس نے بھی بھارت کو ٹھینگا دکھا دیا، بھارت کواِس کا سخت صدمہ ہے، بھارتی عوام یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ مودی کے دور حکومت میں دنیا میں اُس کا کوئی دوست نہیں، مودی نے ہر ایک سے دشمنی مول لی ہے، جب بھارت کے وزیر خارجہ جے شنکر نے بھوٹان کے بادشاہ سے ٹیلیفون پر گفتگو کرنے کی کوشش کی تو پہلے جواب ملا کہ وہ سر درد میں مبتلا ہیں ، اور اُن سے
گفتگو کرکے مزید بیمار ہونا نہیں چاہتے اور بعد میں اُنہوں نے واضح کردیا کہ وہ پاکستان سے کوئی پنگا لینا نہیں چاہتے ہیں، کیونکہ پاکستان کے میزائل کی پہنچ بھوٹان تک ہے اگر ایک میزائل بھوٹان پر گرا تو بھوٹان کے لاکھوں ڈالر کا نقصان ہوجائیگا، کیا بھارت اُس نقصان کی تلافی کرسکے گا؟

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here