ایک کالم دبئی مال سے!!!

0
34
حیدر علی
حیدر علی

شاید آپ کو علم ہوگا کہ دبئی مال دنیا کا سب سے بڑا ڈیپارٹمنٹل اسٹور ہے جہاں آپ کو چلانے کیلئے گاڑی سے لے کر رہنے کیلئے اپارٹمنٹ تک مل جاتے ہیں، گاڑی تو بہرحال ایک ہوتی ہے جو امریکا میں بھی فروخت کیلئے کوسٹکو میں کھڑی رہتی ہے، لیکن اپارٹمنٹ فروخت کرنے کیلئے تو درجنوں ایجنٹس اپنا اسٹالز لگائے تاک میں کھڑے رہتے ہیں اور شاید ہی کوئی صارف اُن کی داد رسی سننے سے بچ سکتا ہو.دبئی میں اپارٹمنٹ فروخت کرنے کیلئے انگلینڈ کی ایک گوری میرے حصے میں آئی تھی ، اُس نے مجھے بتایا کہ ایک بیڈ روم اپارٹمنٹ 29 منزلہ عمارت میں فروخت کیلئے دستیاب ہے، میں نے جب اُسے بتایا کہ میں تو ایک ٹورسٹ ہوں ، آئندہ ہفتے نیویارک واپس چلا جاؤنگا تو کیا ہمارے اپارٹمنٹ میں کوئی بھوت رہا کریگا؟اُس نے جواب دیا کہ یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں آپ اپارٹمنٹ خریدینگے تو شیخوں کی حکومت آپ کو دبئی میں رہنے کیلئے 10 سال کی رہائشی پرمٹ کا اجرا کردیگی،میں نے دِل میں سوچا کہ واہ واہ شیخوں کو بھی کافی عقل آگئی ہے، اُس نے مجھے بتایا کہ قیمت ساڑھے تین لاکھ ڈالر ہوگی جس کی ادائیگی قسطوں میں بھی کی جاسکے گی، اپارٹمنٹ کی عمارت میں جیم ، ساؤنا اور ایک انٹرٹینمنٹ سینٹر بھی ہوگا جس میں آپ مفت کی فلمیں بھی دیکھ سکیں گے،میں نے سوچا کہ اُس گوری سے یہ بھی پوچھ لوں کہ کیا اِن ساری سہولتوں کے علاوہ وہاں ڈالر بنانے کی کوئی مشین بھی ہوگی؟ میں نے اپنے بچوں سے استفسار کیا کہ اُن کی کیا رائے ہے؟ اُن سبھوں نے مشترکہ طور پر جواب دیا کہ ڈیل اچھی ہے میں خرید لوں لیکن اُن سبھوں نے اِس حقیقت کو نظرانداز کردیا کہ دبئی جہاں موسم بہار میں درجہ حرارت 102 سے 110 ڈگری رہتا ہے، جہاں انسان ائیرکنڈیشن کا مخلوق بن جاتا ہے ، جہاں ریسٹورنٹ میں ٹھنڈے پانی کی ایک چھوٹی سی بوتل 7 ڈالر کو ملتی ہے. ٹھیک ہے وہاں عربی زبان تو پست میں چلی گئی ہے اور انگریزی زبان نے اپنا قبضہ جمالیا ، جس سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ امریکا کے کسی شہر میں ہوں ، اور شیخ حضرات آپ کے فیلو سٹیزن، بعد ازاں میرے بچوں کی رائے یہ تھی کہ ہم لوگ بھی دوسرے سیاحوں کی طرح ایک اپارٹمنٹ ابو ظہبی میں خرید لیں جہاں ہم اکتوبر سے اپریل کے ماہ تک رہائش پذیر ہوں اور باقی دِن کوئینز نیویارک میں بچوں کی رائے بچوں کی رائے ہوتی ہے، اُنہیں اِس بات کا علم نہیں ہے کہ آئندہ عرب امارات کے سیاسی حالات کس کروٹ اختیار کرتے ہیں . وہاں آبادی کا تناسب تشویشناک حد تک ایک مسئلہ ہے۔ عرب امارات جس میں دبئی بھی شامل ہے وہاں کی آبادی 10 ملین سے زائد ہے ، اُس میں 9 ملین باہر سے آئے ہوے غیر ملکی ہیں، جبکہ دبئی کی آبادی تقریبا”ساڑھے تین ملین نفوس پر مشتمل ہے، عرب امارات کی کُل آبادی کا صرف 12 فیصدمقامی ایمیریٹس پر مشتمل ہے، جسکا مطلب یہ ہے کہ عرب شیخ نہ صرف اپنے ملک میں اقلیت بن گئے ہیں بلکہ اُن کا نظر آنا بھی خال خال بن گیا ہے، آبادی کے اِس خلا کو بھارتیوں نے پورا کردیا ہے ، جن کی آبادی متحدہ عرب امارات میں 3.5 ملین سے زیادہ تجاوز کر گئی ہے، یہ ایک اور بات ہے کہ ہندو مذہب کے پیرو کار عرب امارات میں صرف 16 فیصد ہیں، دبئی میں اُن کی تین مندریں ہیں تاہم حقیقت یہ ہے کہ متحدہ عرب امارات میں بھارتیوں کی موجودگی کو یکسر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے، بالفاظ دیگر وہ اِس ملک کے سفید و سیاہ کے مالک بن گئے ہیں.تمام شعبہ حیات میں اُن کی نمائندگی محسوس کی جاتی ہے۔ بزنس میں گجرات ، لیبر فورس میں کیرالا ، ہیلتھ کیئر میں یوپی کے انڈین چھائے ہوے ہیں، خدشہ یہ ہے کہ حیدرآباد دکن اور کشمیر کی طرح بھارتی حکومت متحدہ عرب امارات پر بھی اپنی آبادی کی اکثریت کی بدولت قابض نہ ہوجائے، ابھی تو اُنکا رویہ کچھ ایسا ہی ہے جیسے یہ اُن کے باپ کا ملک ہے، پاکستانیوں کی آبادی عرب امارات میں ڈیڑھ ملین سے بھی کم ہے، جن کی اکثریت وہاں اوبر چلاتی ہے۔ بہرکیف اگر یہ حقیقت ہے کہ متحدہ عرب امارات کے پرانے شہریوں کو وہ تمام مراعات حاصل ہیں جن کے نئے مائیگرینٹس تصور بھی نہیں کرسکتے ، لیکن اِس امر کی کوئی یقین دہانی نہیں کہ مستقبل میں بھی اُن کیلئے صورتحال جوں کی توں رہیگی اگر پرانے باشندوں کو یہ شکایت لاحق ہے کہ نئے آنے والوں نے اُن کی روایت، تہذیب وثقافت کی دھجیاں اُڑاکر رکرکھ دیں ہیںتواُنہوں نے بھی اِس کی حفاظت کیلئے کوئی اہم کردار ادا نہیں کیا ہے، میرا ذاتی مشاہدہ تو یہ ہے کہ میں عرب امارات میں کسی بھی ایمیریٹسی کو نئے ایمیگرانٹ سے گفتگو کرتے ہوے یا ساتھ چلتے ہوے نہیں دیکھا. جہاں بھی دیکھا وہاں وہ اپنے ہمجولیوں کے ساتھ خاموشی سے محو گفتگو ہیں، شاید وہ خود کو آسمان سے اُترا ہوا فرشتہ سمجھتے ہوں اور نئے آنے والے کو شیطان عرب امارات میں نائٹ لائف کی بھی کوئی کمی نہیں یہاں ایک لاکھ سے زائد یورپین گورے اِس پیشے کو سر گرم رکھنے میں پیش پیش ہیں۔ اُن کا کام ساری دنیا سے گاہکوں اور طوائفوں کو یکجا کرنا ہوتا ہے، گذشتہ شب جب میں ایک ریسٹورنٹ میں کھانا کھانے گیا تو اچانک ایک بیلی ڈانسر نیم عریاں لباس میں جلوہ افروز ہوگئی اور اپنے فن کا مظاہرہ شروع کردیااور پھر میرے کھانے کا مزہ دوبالا ہوگیا،لوگ دبئی اور ابو ظہبی میں مہنگائی کا رونا روتے ہیں، لیکن اگر وہ اشیا خوردنوش ریسٹورنٹ کی بجائے سُپر مارکیٹ سے خریدیں تو قیمتیں امریکا کے برابر پائیں گے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here