بلاشبہ ترقی پسندی دراصل جدیدت کا نام ہے کہ جس میں ہر شخص کی ترقی ہو پھر فرد برابر کا شہری ہو جو تمام ریاستی وسائل کا حقدار ہو۔ جس کا درس سب سے پہلے اسلام نے دیا تھا کہ ہر انسان برابر ہوگا کسی کو کسی دوسرے پر برتری حاصل نہیں ہوگی زمین اللہ پاک کی ہے جس کا کوئی شخص واحد مالک نہیں ہوگا۔ غلام کو وہی دیا جائے گا جو مالک کھاتا پیتا ہو نوکر کو پسینہ خشک ہونے سے پہلے معاوضہ ادا کر دیا جائے اسلام میں جاگیرداری، سرمایہ داری، اجارہ داری، کرایہ داری حرام ہے۔ اسلام میں سودی نظام کی ممانعت ہے وغیرہ وغیرہ جس سے مسلمان حکمران انحراف کرتے ہوئے ملوکیت سلطانیت بادشاہت، آمریت کے شکار ہوگئے جس کے بعد 19 ویں صدی میںشوشلزم، کمیونزم یعنی اشراکیت اور اشما لیت کا نظریہ کا دل مارکگن نے دیا جس وقت سرمایہ داری جاگیرداری، وڈیر شامل کا پورے ریاستی وسائل پر قبضہ تھا۔ مزدور اور کسان محنت، مشقت کے بعد بھوکا رہتا تھا رہنے کو جگہ نہ تھی پسنے کو کڑا نہ تھا جس میں یہی انسانوں کے برابر، معاوضے اور حقوق کا درس دیا گیا کہ ہر انسان برابر ہے ، ہر انسان کو معاوضہ ضرورت اور کام قابلیت کے مطابق دیا جائے۔ زمین ریاست کی ہے جس کا ہر شہری فائدہ اٹھائے گا، سودی نظام کا خاتمہ کیا جائے جو سرمایہ داری کو جنم دیتا ہے لہٰذا شوشلزم انسانی فلاح کا نام ہے اور کمیونزم طرز حکومت کا نام ہے کہ حکومت عام عوام کی ہوگی بادشاہوں آمروں، جاگیرداروں، وڈیروں، سرمایہ داروں اور اجارہ داروں کا خاتمہ ہوگا جس کے لیے کمیون سسٹم لایاگیا کہ جس میں ہر شخص شریک ہوا تاہم پاکستان میں بھی تقسیم ہند سے پہلے اور بعد میں شوشلزم کا عام چرچا ہوا۔ جس پرنہرو وزیراعظم نے عمل کیا کہ جاگیرداری ختم کی گئی۔جب پوری دنیا نو آبادیاتی نظام سے آزاد ہو رہی تھی جس کی آزادی میں شوشلزم نظریے کا بہت بڑا کردار ثابت ہوا جو روس اور چین کی شکل میں دنیا بھر کے حریت پسندوں کی مدد کرتا ہوا نظر آیا۔ چنانچہ پاکستان میں بھی مختلف ادوار میں ترقی پسندی کا پرچار رہا ہے جس میں پچاس اور ساٹھ کی دہائی کا دور قابل تعریف ہے کہ جب پورے ملک میں شوشلزم کا پرچار تھا متحدہ پاکستان کی ہر بڑی پارٹی میں شوشلزم ایجنڈے میں شامل تھا چاہے وہ عوامی لیگ نیشنل عوامی پارٹی کے دونوں گروپ بھاشانی اور ولی خان گروپ تھے ترقی پسندی طلبا یونینوں، تنظیموں اور مزدور تنظیموں میں زد عام زبان تھی۔ جس کی حمایت اور مخالفت میں ایشیا سرخ اور سبز کے نعرے بلند ہوا کرتے تھے۔ مزید برآں 60کی دہائی کے آخری وقت پاکستان پیپلزپارٹی نے روٹی کپڑا مکان کا نعرہ لگا کر ترقی پسندی کے نظریہ کو ہائی جیک کرلیا۔ یہ دنیا کا پہلا موقع تھا کہ لینن ایک مزدور، مائوزے ننگ ایک کسان کے بیٹوں کے مقابلے میں بھٹو ایک جاگیردار ترقی پسندی کا اس بنا جس کے بعد پاکستان میں شوشلزم کا جو حشر ہوا کہ لوگ اپنے آپ کی شوشلسٹ کہلانے سے کترانے لگے کہ ملک کے جاگیردار اجارہ دار رسہ گیر کہلانے لگے۔ جن کے مقابلے میں جس معراج محمد خان، رانا مختار، اور دوسرے سینکڑوں کو جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا۔ جس کے بعد پاکستان توڑ کر ملک کی لوئر اور مڈل کلاس بنگالی کو الگ کرکے پاکستان کو جاگیرداروں کے اور جنرلوں کے حوالے کردیا گیا۔ جس میں ترقی پسندی کا جنازہ بڑی دھوم سے دھام سے نکلا جس میں نام نہاد ترقی پسندوں کا ایک بہت بڑا سیاہ کارنامہ بھی ہے جو ایک دوسرے کو الزامات سے نوازتے تھے۔ نام نہاد ترقی پسندی چھوڑ چھوڑ کر جاگیرداروں، وڈیروں، سرمایہ داروں کی پارٹیوں میں جاکر پناہ لیتے رہے جو دراصل ترقی پسند نہ تھے جنہوں نے فرقہ واریت، اقلیت، دھریت کی بنا پر ترقی پسندی میں پناہ لی ہوئی تھی جن کا شوشلزم سے دور دور کا واسطہ نہیں تھا جن کے کردار اور اعمال سے بھی ترقی پسندی کو شدید نقصان پہنچا ہے کہ آج پاکستان کے دور انتشاریت اور خلفشاریت میں بھی کہیں نظر آرہی ہے جو نیویارک کے مشیر کے امیدوار ممدانی یا بھارتی عام عوامی پارٹی کی طرح لوگوں کی مدد کر پائے جس کو ترقی پسندی کا فقدان کہا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا۔
٭٭٭

![2021-04-23 18_32_09-InPage - [EDITORIAL-1-16] رمضان رانا](https://weeklynewspakistan.com/wp-content/uploads/2021/04/2021-04-23-18_32_09-InPage-EDITORIAL-1-16.png)











