فیضان محدّث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ
محترم قارئین! نیا اسلامی سال١٤٤٧ھ تمام اہل اسلام کو بہت مبارک ہو، اللہ تعالیٰ اہل اسلام پر اپنا فضل وکرم عطا فرمائے۔ محرم الحرام کا مہینہ اہل اسلام کے لئے ایک خاص اہمیت رکھتا ہے۔ صحیح معنوں میں صحابہ کرام علیھم الرضوان کے غلام اہل بیت اطھار رضی اللہ عنھم کی عظمتوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ خصوصاً امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ عنہ اور آپ کے رفقاء کربلا کو اور ان کی جراتوں کو سلام کا نذرانہ پیش کرتے ہیں۔ امام عالی مقام امام حسین علیہ السّلام کی کیفیت ابوعبداللہ اور لقب ذکی، شھید اور سبط رسول ہے۔ اور آپ کی ولادت باسعادت پانچ شعبان المعظم ٤ھ بروز پیر مدینہ منورہ میں ہوئی۔ بہرحال اہل بیت رضی اللہ عنھم سے محبت کا تقاضا ہے کہ اللہ کو ایک مانا جائے۔ اور رسول اللہۖ کی محبت کا دم بھرا جائے ازواج واہل در یعنی صحابہ کرام علیھم الرّضوان سے والہانہ عقیدت رکھی جائے۔ حضور اعلیٰ حضرت امام احمد رضا، حضور محدّث اعظم پاکستان اور حضور شمس المشائخ نائب محدّث اعظم پاکستان رضی اللہ عنھم کی تعلیمات کا محورو مرکز بھی یہی ہے۔ حضور قائد ملت اسلامیہ نبیرہ محدّث اعظم پاکستان سجادہ نشین آستانہ عالیہ محدّث اعظم پاکستان صاحبزادہ قاضی فیض رسول حیدر رضوی …….صبح وشام، دن رات اسی مشن کو پوری دنیا میں عام کر رہے ہیں۔ حضرت امام اعلیٰ مقام رضی اللہ عنہ کی ولادت باسعادت کی خبر سن کر حضورۖ سیدہ، طیبہ، طاہرہ، راکعہ، ساجدہ، محفوظ عابدہ ، زاہدہ، قاریہ، عالمہ فاطمہ، الزہراء رضی اللہ عنھا کے گھر تشریف لائے۔ حضرت اسماء بنت عملیں رضی اللہ عنھا نے ایک کپڑے میں لپیٹ کر آپ ۖ کی گود مبارکہ میں رکھ دیا۔ آپ نے دائیں کان میں اذان دی اور بائیں کان میں اقامت کہی اور فرمایا: اے علی! اس بچے کا نام کیا رکھنا ہے؟ عرض کی یارسول اللہ! میری کیا تاب ہے کہ آپ سے پہلے نام رکھوں مگر خیال ہے کہ حرب نام رکھا جائے۔ آپ ۖ نے فرمایا، میں اس کا نام رکھنے میں وحی کا منتظر ہوں۔ اسی اثناء میں جبریل علیہ السّلام آئے اور عرض کی ! یارسول اللہ! اس بچے کا نام حضرت علیہ السّلام کے دوسرے بیٹے کے نام پر رکھیں۔ آپ نے فرمایا حضرت ہارون علیہ السّلام کے دوسرے بیٹے کا کیا نام ہے۔ عرض کی اس کانام شبیر تھا آپ نے فرمایا: اے جبریل امین یہ تو عبرانی زبان کا لفظ ہے اور اللہ تعالیٰ نے مجھے عربی زبان عطا فرمائی ہے۔ جبریل امین نے عرض کی یارسول اللہ! شبیر کا معنی حسین ہے تو آپ علیہ الصّلوٰة والسّلام نے آپ کا نام مبارک حسین رکھا ،ساتویں روز دو مینڈھوں کا عقیقہ کیا اور سر کے بال اتروا کر بالوں کے ہم وزن چاندی خیرات کردی۔ جب امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے جبریل امین علیہ السّلام کو بھیجا کہ تو میرے محبوب پاک علیہ الصلٰوة والسّلام کی بارگاہ میں حاضر ہو کر امام حسین رضی اللہ عنہ کی مبارک باد پیش کر اور ساتھ ہی تعزیت کی خبر بھی سنا۔ جب جبریل علیہ السلّام حاضر ہوئے تو آقائے دو جہاں مالک کون ومکان، سیاح لامکاں ۖ امام حسین رضی اللہ عنہ کو گود میں لے کر گردن چوم رہے تھے۔ جبرائیل علیہ السّلام مبارک باد پیش کرنے کے بعد تعزیت کا آغاز کیا تو آنحضرت علیہ الصّلوٰة والسّلام نے فرمایا: مبارک بادی کی وجہ تو معلوم ہے اے جبریل مگر اس موقع پر تعزیت کیسی؟ عرض کی یارسول اللہ! اس شہزادے کے حلق نورانی پر جہاں آپ بوسے دے رہے ہیں اسی حلق نورانی پر ان کی والدہ محترمہ کے وصال، والدو بردار رضی اللہ عنھم کی شہادت کے بعد اشقیائے امت خنجر خوں خوار چلائیں گے اور اہل بیت کے خیموں کو آتش ظلم وجفا سے جلائیں گے اور ساتھ ہی جبریل علیہ السّلام نے کربلا میں پیش آنے والے واقعات کا کچھ حال سنایا۔ آقائے دو جہاں ۖ کی چشم مازاغ البصر سے آنسو ٹپکنے لگے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی آنکھوں سے سیلاب اشک بہہ نکلا۔ اسی حالت میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا کے پاس پہنچے تو انہوں نے فرمایا: خیر تو ہے آج خوشی کا دن ہے نہ کہ غم کا اگر خوشی کے آنسو ہیں توٹھیک ہے اور اگر غم کے ہیں تو اس کی وجہ بتائیں؟ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: فاطمہ یہ غم کے آنسو ہیں تمہارے والد مکرم علیہ الصّلواہ والسّلام نے جبریل علیہ السّلام سے یہ سن کر مجھے بتایا ہے کہ امت کے چند بے رحم لوگ آپ کی بوسہ گاہ یعنی حلقوم حسین علیہ السّلام پر تیغ جفا چلائیں گے۔ اور اللہ کے نبی علیہ السّلام نے فرمایا ہے کہ یہ واقعہ ابھی نہیں ہوگا بلکہ حسین علیہ السّلام کی والدہ محترمہ کی وفات اور والد گرامی اور بھائی حسن علیھم السّلام کی شہادت کے بعد ہوگا۔ امام عالی مقام کا حسن وجمال اس قدر تھا کہ جب آپ اندھیرے میں بیٹھتے تو لوگ آپ کی جبین اقدس کی شعاعوں اور چہرہ انور کی روشنی میں راستہ دیکھ لیتے۔ حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ سر انور سے سینہ مبارک اور امام حسین رضی اللہ عنہ مدینہ اقدس سے پائوں تک حضور علیہ الصّلواة والسّلام سے کمال مشابہت رکھتے تھے۔اللہ تعالیٰ آپ کے درجے بلند فرمائے۔ آپ کے فیضان جرات وبہادری سے ہمیں وافر حصہ عطا فرمائے(آمین)۔
٭٭٭٭٭٭











