نیویارک(پاکستان نیوز) پاکستان ، چین اور روس کی کاوشیں رنگ لے آئیں ، اقوام متحدہ نے افغانستان کی مدد کے لیے فوری امدادی رقم جاری کرنے کیلئے گرین سگنل دے دیا، اقوام متحدہ کی جانب سے اس اقدام پر پاکستان کے موقف تائید ہوئی ہے ، قرارداد کی منظوری کے بعد افغانستان کو امداد کے حوالے سے قانونی پیچیدگیاں ختم ہو گئی ہیں،پاکستان چین اور روس نے اس قرارداد کے حوالے سے ممبر ممالک کے ساتھ روابط کئے ، قرارداد کی منظوری سے افغانستان کو فوری طور پہ امداد کے لئے جمع کی گئی رقم ادا کی جا سکے گی،امداد اقوام متحدہ کے زیلی اداروں کے ذریعے افغانستان کو دی جائے گی،یہ امداد فوری طور پہ اقوام متحدہ کے زیر اہتمام افغانستان پہنچنا شروع ہو جائے گی،وزیراعظم پاکستان کا ویژن اس قرارداد کی منظوری میں اہم ثابت ہوا ہے۔ہمیں پوری اُمید ہے کہ اس قرارداد کے بعد افغانستان کے منجمد شدہ اکاونٹ بھی بحال ہو جائیں گے ، افغانستان میں چالیس برس بعد ایسی حکومت آئی ہے جس کا کنٹرول پورے ملک پہ ہے ، اُمید کرتے ہیں کہ افغان حکومت بھی اپنے رویے میں بہتری لائے گی اور لا بھی رہی ہے،قرارداد کی منظوری افغانستان کے مستقبل کے لئے بہت اہم ہے اگر فوری امداد افغانستان نا پہنچ پائی تو افغانستان اور اس کے عوام انسانی المیہ کا شکار ہو سکتے تھے،دہشت گرد تنظیمیں صورتحال کا فائدہ اُٹھا کر افغانستان کا امن تباہ کر سکتی ہیں، افغانستان سے پسے ہوئے طبقے کی ہجرت خطہ پاکستان کے لئے گہری مشکلات پیدا کرسکتی تھیں۔دریں اثنا ء او آئی سی وزرائے خارجہ کونسل کے غیر معمولی اجلاس کا اعلامیہ جاری کردیا گیا،وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی اور سیکرٹری جنرل او آئی سی نے مشترکہ پریس کانفرنس کی، شاہ محمود قریشی نے کہا کہ افغانستان کیلئے غذائی تحفظ پروگرام تشکیل دیا جائے گا، مالیاتی چینلز کھولے جائیں گے اور نمائندہ خصوصی مقرر کیا جائے گا۔ افغانستان کو کرونا کے تناظر میں ویکسین اور طبی امداد دی جائے گی۔اْنہوں نے کہا کہ او آئی سی وزرائے خارجہ کونسل کے غیرمعمولی اجلاس کے شرکاء کے شکرگزار ہیں۔ سیکرٹری جنرل او آئی سی کا خصوصی طور پر شکریہ ادا کرتے ہیں۔ او آئی سی سیکرٹری جنرل کے تعاون کے بغیر اجلاس کا انعقاد ممکن نہیں تھا۔وزیرخارجہ شاہ محمود نے کہا افغان وفد کو بھی کانفرنس میں مدعو کیا گیا تھا، او آئی سی اجلاس میں افغان صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ او آئی سی اجلاس میں افغان صورتحال پر تبادلہ خیال اہم پیش رفت ہے۔ کانفرنس کے موقع پر افغان وفد سے متعدد بار ملاقاتیں ہوئیں، افغانستان کے حوالے سے فوری اقدامات نہ کیے گئے تو انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے، افغانستان میں ابھرتے ہوئے انسانی المیے سے بروقت نمٹنے کی ضرورت ہے۔مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہا او آئی سی اجلاس میں مرکزی نقطہ چار کروڑ افغان عوام تھے، افغانستان کی صورتحال میں بہتری لانا عالمی برادری کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ اجلاس کی پہلی قرارداد میں افغان صورتحال کا جائزہ پیش کیا گیا۔اْن کا کہنا تھا کہ مشکل کی اس گھڑی میں افغان عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہیں۔ اجلاس کے شرکاء نے افغانستان کے لیے غذائی تحفظ کے معاملے پر اتفاق کیا۔ اجلاس میں افغانستان میں انسانی بحران سے نمٹنے کے لیے اقدامات پر بھی اتفاق کیا گیا۔ افغانستان کے لیے او آئی سی کا خصوصی نمائندہ مقرر کرنے پر بھی اتفاق کیا گیا۔وزیرخارجہ نے کہا کہ امریکی خصوصی نمائندے تھامس ویسٹ کے مثبت کے خیالات سنے، اُمید ہے یہ غیرمعمولی اجلاس ایک پل کا کردار ادا کرے گا۔ افغانستان کی عوام کی مشکلات پر کھل کر بات کی گئی ہے، افغانستان اور مسئلہ فلسطین کے حوالے سے دو دستاویزات متفقہ طور پر منظور کی گئیں۔شاہ محمود نے کہا افغان عوام کے لیے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ٹرسٹ قائم کرنے پر اتفاق ہوا، او آئی سی اور اقوام متحدہ نے افغانستان میں مل کر کام کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ افغانستان کے بینکنگ چینلز کی بحالی تک امداد کی ترسیل میں آسانی پیدا کرنے کے لیے بھی بات ہوئی ہے، فیصلہ کیا گیا ہے پرائیویٹ بینکوں کو اوپن کردیا جائے تاکہ ان کے ذریعے ترسیل ممکن ہوسکے،وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے مزید کہا پاکستان نے ہر فورم پر واضح کیا ہے کہ بھارت کا کردار افغانستان میں منفی رہا ہے۔ اس کے باوجود پاکستان نے مثبت اقدام اُٹھایا اور افغانستان کی امداد کے لیے بھارت کو راستہ دیا، بھارت سمجھتا تھا، پاکستان راستہ نہیں دے گا۔امریکہ کے وزیر خارجہ انتونی بلنکن نے پاکستان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسلام آباد میں افغانستان پر اسلامی تعاون تنظیم کا غیر معمولی اجلاس ہمارے مشترکہ عزم کی ایک مثال ہے۔بدھ کو ایک ٹویٹ میں انتونی بلنکن کا کہنا تھا کہ ‘ہم اس اہم میٹنگ کا انعقاد کروانے اور افغان عوام کی مدد کے لیے عالمی برادری کو مدعو کرنے پر پاکستان کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔واضح رہے کہ گذشتہ ہفتے سعودی عرب کی جانب سے افغانستان کے حوالے سے اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے وزرائے خارجہ کا خصوصی اجلاس اسلام آباد میں ہوا تھا۔اس اجلاس میں او آئی سی کے وزرائے خارجہ کے علاوہ اقوام متحدہ، یورپی یونین اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے نمائندوں سمیت امریکہ، چین، روس، جرمنی، اٹلی، جاپان اور فرانس کے خصوصی مندوبین نے شرکت کی۔