رمضان کے ماہِ مبارک کے اختتام اور عید الفطر کے سویوں کے بارے میں سوچتے ہوئے، غم و خوشی کے عجیب امتزاج کے احساس کے ساتھ، جس چیز کا سب سے زیادہ ادراک ہو رہا ہے وہ زکواة وصدقات کا ماہِ صیام کے ساتھ انتہائی گہرے تعلق کی موجودگی ہے۔ ویسے تو قرآن و حدیث کی تعلیمات پورا سال ہی مستحقین اور مستضعفین کے حقوق ادا کرنے کی تاکید کرتی ہیں لیکن ان خاص دنوں میں تو مسلم اجتماعیت، سخاوت کے ایک بہت بڑے سمندر کا نظارہ پیش کر رہی ہوتی ہے۔ زکا المال، صدقہ فطر، فدیہ، کفارہ اور عید کے تحائف سے آگے بڑھ کر خیرات و صدقات کی تقسیم، پوری دنیا کی معیشت پر ایک انتہائی مثبت اثر ڈالتی ہے۔ عیدالفطر کو ویسے تو عرفِ عام میں چھوٹی یا میٹھی عید کہتے ہیں لیکن نبی اکرم ۖ عید الفطر کا اہتمام خاصے بڑے پیمانے پر فرماتے تھے۔ ہمیں اس شکرانے کے تہوار کا استقبال صدقہ فطر کی بروقت ادائیگی سے کرنے کا حکم ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اس پرمسرت دن، امیر و غریب مل جل کر خوشیاں منائیں۔ کوئی یتیم و نادار اپنے زردار پڑوسیوں سے پیچھے نہ رہ جائے۔ کفالتِ یتیم کا تصور بھی نبی اکرم ۖ نے عید کے دن ایک روتے ہوئے یتیم بچے کو گود میں لے کر ہمیں عطا فرمایا تھا۔ عید کی نماز کے موقع پر صدقات کے جمع کرنے کا عمل بھی نبی اکرم کی ۖ سنت میں موجود ہے۔ حتی کہ خواتین کے سیکشن میں چادر پھیلا کر صدقات جمع کرنے کا عمل بھی رسول اللہ ۖ نے اپنی نگرانی میں انجام دیا۔ مال و دولت کی محبت سے نجات کیلئے یقینا کثرتِ صدقہ و خیرات ہی بہترین صورت ہے۔ اسی لئے تو اللہ اور اس کے رسول نے سال کے ان بہترین دنوں کو مفلسوں اور ناداروں کی چارہ جوئی کیلئے مختص کر دیا ہے۔ نشور واحدی نے کیا صحیح کہا ہے کہ!
پیسے کا پجاری دنیا میں سچ پوچھو تو انساں ہو نہ سکا
دولت کبھی ایماں لا نہ سکی سرمایہ مسلماں ہو نہ سکا
امریکہ کے امیگرینٹ مسلمانوں کی بڑی اکثریت کے خاندان ابھی اتنے بڑے تو نہیں ہوئے کہ عزیز رشتہ داروں کے اندر ہی عید کا دن بیت جائے۔ البتہ دوست و احباب کے حلقے اب اتنے وسیع اورمضبوط ہو چکے ہیں کہ نماز عید کے بعد ہر کسی کو کئی ساری محفلوں کا حصہ بننے کا موقع مل جاتا ہے۔ حالانکہ میں جب امریکہ آیا تھا تو پچیس چھبیس سال کا تھا لیکن پھر بھی ابتدا کے چار پانچ سال، امی ابو اور بھائی بہنوں کی یادیں، عید کو سوگوار کر دیتی تھیں۔ سلیمان جاذب کے بقول!
نہ پوچھو کس طرح سے ہم
گھروں کی بات کرتے اور پھر آنسو چھپاتے ہیں
بجھے دل مسکراتے ہیں
سنو اے دیس کے لوگو
ہمیں شدت سے اپنا دور بچپن یاد آتا ہے
ہمیں ماں کی میٹھی میٹھی ممتا یاد آتی ہے
ہنساتی ہے رلاتی ہے
تسلی کے لیے ہم ایک دوجے سے یہ کہتے ہیں
دنوں کی بات ہے ہم بھی وطن کو لوٹ جائیں گے
یقینا عید اگلی اپنے اپنے گھر منائیں گے
لیکن اب اتنی مدت بیت گئی ہے کہ یہ پردیس، اب دیس بن گیا ہے۔ ہماری اگلی نسل یہاں پروان چڑھ رہی ہے۔ امی ابو اب جہاں رہتے ہیں وہ پاکستان اور امریکہ سے ایک ہی جتنے فاصلے پر ہے۔ یادوں کی دنیا تو ایسی دنیا ہے جس کو آپ ہر جگہ سے ایک ہی طریقے سے محسوس کر سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے سارے بزرگوں کی مغفرت فرمائے۔ آمین۔مسلمانوں کے علاوہ دیگر قوموں کے خوشی کے تہوار ناچ گانے اور غل غپاڑے کا شکار ہو چکے ہیں۔ ہماری عیدوں کا مرکزی موضوع آج بھی دو رکعت نمازِ شکرانہ ہے۔ الحمداللہ۔ نماز کی ادائیگی کے بعد عید کے دن ملنے ملانے کا خوب اہتمام ہوتا ہے۔ نئے، صاف اور خوبصورت پیرہن عید الفطر کی خوشیوں کا ایک لازم جز ہے۔ بھلا ہو انٹرنیٹ پر آن لائین شاپنگ کا کہ دیس سے دور رہنے والوں کیلئے اب عید کے جوڑے خریدنا آسان ہو گیا ہے۔ اسی طرح عیدی لینے اور دینے کے انداز بھی بدل گئے ہیں۔ نئے نوٹوں کے حصول کیلئے سفارش کی ضرورت نہیں۔ زیل یا وینمو جیسے سسٹم موجود ہیں۔ محمد اسداللہ کی اس نظم پر یہ تحریر ختم کرتے ہیں تاکہ آپ کو بروقت سویاں کھانے کا موقع مل جائے۔
خوشا کہ شیر و شکر ہو گئے گلے مل کر
خلوص دل ہی دکھانے کو عید آئی ہے
اٹھا دو دوستو اس دشمنی کو محفل سے
شکایتوں کے بھلانے کو عید آئی ہے
کیا تھا عہد کہ خوشیاں جہاں میں بانٹیں گے
اسی طلب کے نبھانے کو عید آئی ہے
٭٭٭