دھونس کیلئے انگریزی کا ایک لفظ ہے”BULY”جیسے کچھ بچے اسکول میں کمزور بچوں پر اپنی دھونس جماتے ہیں اور انہیں ڈراتے دھمکاتے ہیں کچھ بچے جواباً اکڑ جاتے ہیں اور اسی دھونس کے سامنے جھکنے سے انکار کردیتے ہیں لیکن کمزور دل بچے اکثر اس دھونس کے اثر کو قبول کر لیتے ہیں لیکن پھر انکی زندگی اسکول میں بہت پریشانی میں گزر جاتی ہے۔ اب ایسی دھونس پاکستان میں اور خصوصاً پاکستانی سیاست میں بھی سرائیت کر گئی ہے، اس کام میں بڑا حصہ تو ہمارے کپتان صاحب کا ہے جنہوں نے اپنے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے پیش کئے جانے کے بعد پہلے”نیوٹرل” کو دینا شروع کی اور بعد میں منصفین پر بھی چنگاڑتے رہے، اب جب سے ڈپٹی سپیکر پنجاب کی رولنگ حمزہ شہباز کے حق میں آئی ہے اور وہی بینچ لاہور رجسٹری میں سپریم کورٹ میں جمائی سے جنکا جھکائو خان صاحب کی طرف زیادہ ہے۔12/13جماعتوں کے اتحاد نے بھی ججوں کو دھونس دینے کے لیے شروع کردیا ہے الگ بات ہے کہ جج انکی دھمکی سے مرعوب ہوتے ہیں یا نہیں!بہرحال کم ازکم یہ تو ہوا ہے کہ عمران خان نے طاقتور حلقوں کو دھمکیاں دینے کے عمل کا رواج ڈال دیا ہے۔تحریک انصاف نے مجموعی طور پر بدتمیزی گالم گلوچ اور پگڑیاں اُچھالنے کی روایت کو پاکستانی کی گفت شنید کا حصہ بنا ڈالا ایک طرف معیشت تباہی کے دہانے پر ہے سیاست میں تشدد اور تصادم کا خطرہ انتہا کو پہنچ گیا ہے۔معاملات سلجھتے نہیں بگڑتے جارہے ہیں ،اب ملک کی اعلیٰ ترین عدالت بھی متنازعہ بن گئی ہے۔عجیب سا احساس ہو رہا ہے ایسے لگتا ہے کہ کچھ لوگ اس ملک کو خاکم بدھن تباہی کی طرف دھکیلنے پر مامور ہیں، بیرونی دشمن تو چاہتے تھے لیکن اب اندرونی عناصر بھی متحرک ہوگئے ہیں۔پنجاب میں خانہ جنگی کا خدشہ بڑھ گیا ہے اورجس کے نتیجے میں پورا ملک عدم استحکام کا شکار ہوسکتا ہے۔اہم ادارے حالات کو سنبھالنے کے بجائے مزید ابتری کے ذمہ دار نظر آتے ہیں۔سپریم کورٹ کے پاس یہ آپشن تھا حکومتی اتحاد کے مطالبے کو اگر تسلیم کرکے فل کورٹ بینچ تشکیل دے دیتی تو کسی کے پاس گنجائش نہیں رہتی، کسی قسم کے اعتراض کی لیکن صد افسوس چیف صاحب نے اس حساس مسئلے کی اہمیت کو سمجھنے کے بجائے اپنی انا کو فوقیت دی اور فیصلہ دے دیا کہ یہی بینچ رہیگا کر لو جو کرنا ہے، اسی بینچ نے اپنے سابقہ فیصلے سے صورتحال کو بگاڑ دیا اور جماعتی سربراہ کے فیصلے اور خطہ کو پارلیمانی گروہ پر فوقیت دی اب وہ اسی فیصلے کے برعکس اگر فیصلے دیتے ہیں تو جو 22ممبران نہ صرف اپنی نشستیں گنوا بیٹھے بلکہ انکے دیئے گئے ووٹوں کو بھی رد کیا گیا۔اب جو بھی فیصلہ ہوگا وہ متنازعہ ہی ہوگا اور ملک میں شدید سیاسی ہنگامہ ہونے کا خطرہ درپیش ہے۔آج مکافات عمل نظر آرہا ہے جو زیادتی جسٹس قاضی فیض عیٰسی اور انکے گھرانے کو حراساں کرکے کی گئی تھی اس کا عذاب عدلیہ کی بنیادوں کو ہلانے کا باعث ہوگیا ہے، ویسے سچ تو یہ ہے کہ جو حضرت علی کے بقول غیر اسلامی نظام حکومت تو چل سکتا ہے لیکن بے انصافی کا نظام پر مبنی نظام حکومت زیادہ وقت قائم نہیں رہ سکتا۔غریب درخواست گزاروں کے ہزاروں لاکھوں مقدمات عدالتوں میں دھول چاٹ رہے ہیں۔اور کوئی داد رسی نہیں ہوتی ججوں کو بے انتہا مراعات اور مشاہر ملنے کے باوجود بھی اگر مقدمات بیسوں برس عدالتوں کی الماریوں میں مقید رہینگے تو ان سائلوں کی چیخ وپکار تو نیلی چھتری والے تک پہنچے گی۔اور رب جلیل کے پاس دیر ہے پر اندھیر نہیں اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے۔عوامی مسائل میں بے شمار اضافہ کے ایک اہم ذمہ دار ہے جج صاحبان بھی ہیں جن کی عدالتوں نے جبر گمشدگی کے متاثرہ خاندانوں کی داد رسی نہیں کی جن کی گھروں میں آج بھی کہرام مچا ہواہے بچے اپنے والد، بیویاں اپنے شوہروں اور بہنیں اپنے بھائیوں کے انجام سے بے خبر التجا کرتی ہیں کہ ظالمو ہمارے عزیزوں کی لاشیں ہیں دیدو اگر وہ مار دیئے گئے ہیں کم ازکم رو دھو کر ہم جھوٹی اُمید کے سہارے دروازے کی طرف آس لگا کر تو نہ بیٹھے رہیں۔پاکستان کا عدالتی نظام آج جس کڑی آزمائش سے گزر رہا ہے ہوسکتا ہے کہ وہ جبری گمشدگی کے متاثرین کی بددعائوں کا نتیجہ ہو اور جج صاحبان کو اندازہ ہونا چاہئے ۔
٭٭٭٭٭