تاریخ اسلام کا جھومر حضرت عمر!!!

0
250
مفتی عبدالرحمن قمر
مفتی عبدالرحمن قمر

ہم مسلمان خانہ جنگیوں کے نتائج میں ایسے اُلجھے ہیں کہ ہم تاریخ اسلام کی سنہری تاریخ کو بھی بھلا بیٹھے ہیں آج سے تقریباً تیس برس پہلے مین ہٹین نیویارک میں محرم کا جلوس تھا۔میں بھی چلا گیا نیا نیا پاکستان سے آیا تھا اس لئے معلومات اکٹھی کر رہا تھا ،میرے سامنے سے ایک ماتمی دستہ گذرا۔جو چھریوں سے ماتم کر رہا تھا۔ میرے ساتھ ایک گورا کھڑا تھا اس کی آنکھیں حیرت سے پھٹی ہوئی تھیں وہ مجھ سے پوچھنے لگا ان کو کیا ہوا ہے۔ یہ اپنے آپ کو سزا کیوں دے رہے ہیں ،میں انجان بن گیا ،کیا جواب دیتا اور حقیقتاً میرے پاس جواب نہیں تھا۔ کیا بتاتا کہ مسلمانوں نے اپنے نبی کے نواسے کو شہید کردیا تھا لیکن میں نے اس کا رخ موڑ دیا کہا جانتے ہو ہمارے امریکن آئین میں کتنی شقیں ایسی ہیں جو عمر لاء کہلاتی ہیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ حقیقی طور پر اسلام کے جھومر تھے۔حضرت ابوعبیدہ بن جراح جن کو سرکار دو عالم نے امین اُمت کا خطاب دیا تھا۔چار ماہ سے بیت المقدس کا محاصرہ کئے ہوئے تھے۔فتح کی کوئی صورت نہیں تھی۔ادھر سے محصور لوگ بھی تنگ آچکے تھے۔وہ اپنے بزرگ پادری قمامہ جو صاحب نظر تھا۔اس کے پاس پہنچے اور کہا محترم قمامہ ہم تنگ آگئے ہیں ہمت جواب دے رہی ہے۔راشن ختم ہو رہا ہے کچھ ہمیں کتابوں سے پڑھ کر دیکھ کر بتائیے کہ فتح ہمارے نصیب میں ہے یا نہیں ان کے لوگ بھی شہید ہو رہے ہیں ،ہمارے بھی مر رہے ہیں۔اس نے کہا صبح مجھے لے چلو اور مجھے مسلمانوں کے امیر سے ملا دو۔ پادری قمامہ نے حضرت ابوعبیدہ بن جراح سے ملاقات کی باتیں کی اور پوچھا آپ مسلمانوں کے امیر ہو۔میری کتابوں میں لکھا ہے ایک سرخ مرونبی آخر الزمان کا ساتھی اس کو فتح کرے آپ نے فرمایا میں ان کا نمائندہ ہوں۔وہ مدینہ طیبہ میں ہے۔قمامہ نے کہا آپ ان کو بلالیں جنگ بندی کریں گے اگر آپ کا وہی امیر ہے جو میری کتابوں میں لکھا ہے تو ہم بغیر کسی حیل وحجت کے شہر آپ کے حوالے کردیں گے۔ابوعبیدہ نے قاصد بھیجا،آنے کی درخواست کی حضرت عمر نے قبول فرمائی۔اپنے خادم کے ساتھ اس حالت میں باری باری اونٹ پر سواری کرتے پہنچے جب قریب آئے تو باری خادم کی تھی۔وہ اونٹ پر مہار آپ کے ہاتھ میں تھی جو پیر مین آپ نے پہنا ہوا تھا اس پر چودہ پیوند لگے تھے۔قمامہ فیصل سیدیکھ رہا تھا ،پہچان گیا نیچے اترا اپنے رئوساء کے ساتھ شہر کی چابی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر رکھ دی،معاہدہ لکھا گیا جس کی ایک شرط یہ بھی تھی کہ آپ یہودیوں کو بیت المقدس میں رہنے کی جگہ نہیں دیں گے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here