اب صدارتی نظام کا سوچیں!!! تجزیہ: محمد حسین

0
123

تجزیہ(محمد حسین) 2006 پنجاب میں ق لیگ کی حکومت تھی جسے فوجی آمر جنرل مشرف کی سرپرستی حاصل تھی ۔ اپوزیشن والے اکثر شور مچا کر اسمبلی کی کارروائی میں رکاوٹ ڈالتے ۔ اس کے باوجود سپیکر پنجاب اسمبلی محمد افضل ساہی اجلاس کو جاری رکھتے ۔ ایک دن شور کے دوران انہوں نے کہا کہ اپوزیشن جتنا چاہے شور مچائے میں اجلاس کی کارروائی جاری رکھوں گا ، میں وہ فوجی گھوڑا ہوں جو جنگ میں بھی آگے بڑھتا رہتا ہے۔ اب ق لیگ جسے ماضی میں زرداری نے قاتل لیگ اور عمران خان نے پنجاب کے ڈاکو کہا تھا ، پی ٹی آئی کے اتحادی بن کر اپنے 10 ممبران پنجاب اسمبلی کے ساتھ ملکی بالخصوص پنجاب کی سیاست میں کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں ۔ یہی جمہوریت ، پارلیمانی طرز حکومت اور اکثریتی عوامی رائے کے نظام کے ثمرات ہیں ۔ جنرل حمید گل نے 15 سال قبل اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ60-70 ممبران اسمبلی ہمیشہ ایجنسیوں کی جیب میں ہوتے ہیں ۔3 مارچ کو پاکستانی ایوان بالا کے انتخابات میں ممبران پارلیمنٹ کی کھلی خرید وفروخت کو وزیراعظم عمران خان نے بکرامنڈی اور ہارس ٹریڈنگ قرار دیا ۔ 1988 میں جاپانی دانشور فوکو یاما نے کہا کہ دنیا میں اب نظریاتی سیاست ختم ہوگئی ہے ، اب صرف سکہ رائج الوقت چلے گا ۔ مریم صفدر نے سینٹ میں ووٹ کے عوض ٹکٹیں دینے کے وعدے کا اعتراف کیا جبکہ وزیراعظم عمران خان نے اسے کیش ڈیل بتایا ، جس کے تمام ثبوت خفیہ اداروں کے پاس موجود ہیں ،عمران خان نے مزید کہا کے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو خفیہ اداروں سے اس پر ایک بریفنگ لینی چاہیے ۔ انہوں نے شفاف انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنانے کیلیے الیکشن کمیشن آف پاکستان اور عدلیہ کو حکومت کی جانب سے تمام سہولتیں فراہم کرنے کی یقین دہانی بھی کروائی۔2018 میں پی ٹی آئی نے بھی آزاد ارکان اسمبلی کو پی ٹی آئی میں شامل کرنے کیلییتحریص و ترغیب کے تمام حربے آزمائے لیکن کیش ڈیل کہیں نظر نہیں آئی ۔ جہانگیر ترین کے جہاز نے اتنی تباہی مچائی جتنی ایم ایم عالم کے جہاز نے بھی نہیں مچائی تھی جس کے نتیجے میں ن لیگ کا پنجاب میں اکثریت بنانے کا خواب چکنا چور ہو گیا ۔ سیالکوٹ اور سینیٹ کے انتخابات نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی کارکردگی پر سوالات اٹھا دیئے ہیں ۔ چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ سابق وزیراعظم نواز شریف کے پرنسپل سیکرٹری سعید مہدی کے داماد ہیں ۔ وزیراعظم عمران خان نے کسی تعصب کے بغیر ان پر اعتماد کرتے ہوئے میرٹ پر 27 جنوری 2020 کو ان کی تعیناتی کی تھی ۔ پوری پاکستانی قوم پہلے ہی مہنگائی کی صورت ن لیگی میگا پراجیکٹس کی قسطیں بمع سود ادا کر رہی ہے ۔ابھی کچھ اندازہ نہیں ہے کہ یہ ایک ارب 60 کروڑ روپے کیسے واپس کرے گی ؟ اور سرمایہ کار اس سے کیا فوائد حاصل کرنا چاہتے ہیں ؟ پاکستان الیکشن ایکٹ 2017 کی سیکشن 156 (D) کے مطابق امیدوار خود ، اس کے الیکشن ایجنٹ یا کسی حمایتی کی طرف سے الیکشن میں کسی قسم کی دھاندلی ، بددیانتی، رشوت اور کسی بھی غیر قانونی کام کے ثابت ہونے کی صورت میں الیکشن ٹریبونل اس الیکشن کو کالعدم قرار دے سکتا ہے ۔ ساری دنیا سے بے خبر ہڈ حرام پاکستانی میڈیا شہزادی مریم اور شہزادے بلاول کی خبروں سے باہر نہیں نکلتا وگرنہ اس پر ضرور بات کرتا کہ پاکستان کو ایوان بالا یا پارلیمانی نظام حکومت کی کیا ضرورت ہے؟ الیکشن کمیشن آف پاکستان کیوں صحیح کام نہیں کر رہا ؟ اور ملک میں کیوں نہ صدارتی نظام رائج کر دیا جائے؟ جس کی کوشش 2008 میں صدر آصف علی زرداری بھی کر چکے ہیں ۔ آئینی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ صدارتی نظام حکومت ہی اسلامی نظام حکومت سے قریب تر ہے تاکہ صدر کا انتخاب عوام براہ راست کثرت رائے سے کریں ۔ پاکستان جیسا غریب ملک دو ایوانوں ، ایوان بالا اور ایوان زیریں جیسی عیاشیوں کا متحمل نہیں ہو سکتا ۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ کی 50 کمیٹیاں ہیں،ہر کمیٹی کا ایک چیئرمین ہے جس کے ذاتی دفتر کی تیاری پر 2 کروڑ روپے خرچ ہوتے ہیں،ہر چیئرمین اپنی پارلیمانی رکنیت کی تنخواہ کے علاوہ بطور کمیٹی چیئرمین ایک لاکھ 70 ہزار روپے ماہانہ تنخواہ لیتا ہے ، اسے گریڈ 17 کا ایک سیکریٹری ، گریڈ 15 کا ایک سٹینو ، ایک نائب قاصد 1500 CC گاڑی 600 لیٹر پیٹرول ماہانہ ، ایک رہائش اور اس کے تمام جملہ اخراجات کے علاوہ اجلاسوں پر اُٹھنے والے خرچ اور دوسرے شہروں میں جانے کے لیے مفت جہاز کے ٹکٹ بھی ملتے ہیں ۔ قدرت اللہ شہاب نے اقوام متحدہ ،یونیسکو کے ایک ہی کام کیلئے دو ڈائیریکٹر جنرلز کی تعیناتیوں ، اضافی اخراجات ، مراعات اور عیاشیوں پر تنقید کرتے ہوئے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ If you have two bottle necks insted of one , does it really double the capacity of the bottle … ؟

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here