کیلی فورنیا (پاکستان نیوز) آسٹریلیا جانے کی کوشش کے دوران پاپوا نیو گنی کے بدنام زمانہ مانوس کیمپ میں پانچ سال گزارنے والے عزت اللہ کاکڑ گذشتہ سال امریکہ میں پناہ ملنے کے بعد زندگی کا پہیہ چلانے کے لیے ٹرک ڈرائیور کی نوکری کر رہے ہیں۔ وہ کیلیفورنیا کی سڑک پر ٹرک چلا رہے تھے جب انہیں بیرناکل فائٹنگ چیمپیئن شپ میں مقابلہ لڑنے کی پیشکش ہوئی۔ سابق ورلڈ ِکک باکسنگ رنر اپ چیمپیئن اور پاکستان کک باکسنگ چیمپیئن رہنے والے 29 سالہ عزت اللہ کاکڑ کے پاس شاید اپنے خوابوں کی تکمیل اور خود کو ثابت کرنے کے لیے یہ آخری موقع تھا۔ لیکن مقابلے سے صرف دو ہفتے پہلے ان کا کندھا اتر گیا۔ اس کے باوجود عزت اللہ کاکڑ نے زخمی کندھے کے ساتھ دستانوں اور حفاظتی گیئرز کے بغیر کھیلے جانے والی مْکوں کی لڑائی کے خطرناک کھیل بیرناکل فائٹنگ چیمپیئن شپ (بی کے ایف سی ) کے مقابلے میں امریکی حریف کو صرف 33 سیکنڈ میں ناک آوٹ کر کے اپنے کیرئیر کا دوبارہ پراعتماد اور حیران کن آغاز کیا۔ 30 اپریل کو امریکی ریاست الاباما کے شہر برمنگھم میں کھیلے گئے بیرناکل چمپئن شپ کروزر ویٹ (93 کلوگرام) مقابلے میں امریکی فائٹر کرس سارو کو شکست دینے کے ساتھ عزت اللہ کاکڑ پہلے پاکستانی فائٹر بھی بن گئے جنہوں نے اس کھیل میں حصہ لیا۔ عزت اللہ کاکڑ بیرناکل چمپئن شپ میں حصہ لینے والے پہلے پاکستانی فائٹر ہیں۔ کوئٹہ سے 80 کلومیٹر دور پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر واقع بلوچستان کے ضلع قلعہ عبداللہ کے علاقے گلستان عبدالرحمان زئی سے تعلق رکھنے والے عزت اللہ کاکڑ کی زندگی امتحانات، مشکلات اور جدوجہد سے عبارت رہی ہے۔ سنہ 2004 میں 12 سال کی عمر میں وہ سکول اور دینی مدرسے کے طالب علم تھے جب انہوں نے والدین سے چھپ کر باکسنگ اکیڈمی جوائن کی۔ کوئٹہ میں کوچ رحمت اللہ نورزئی نے انہیں تربیت دی۔ عزت اللہ کاکڑ کے مطابق والدین اور خاندان کی جانب سے باکسنگ کھیلنے کی شدید مخالفت کی گئی۔ ‘ایک غریب گھرانے سے تعلق کی وجہ سے والدین کی خواہش تھی کہ پڑھ لکھ کر کوئی نوکری کرلوں مگر میری تمام تر توجہ باکسنگ پر تھی۔’ خصوصی انٹرویو میں انہوں نے بتایا کہ بلوچستان اور پاکستان کک باکسنگ چیمپیئن شپ جیتنے کے باوجود حکومت کی جانب سے کوئی تعاون نہیں کیا گیا۔ جس کی وجہ سے انہیں متحدہ عرب امارات، روس اور ایران میں ہونے والے مقابلوں میں شرکت کے لیے رشتہ داروں اور دوستوں سے مدد مانگنا پڑی۔ ‘میں اپنے چچا اور باقی لوگوں سے مدد مانگ کر اپنے اخراجات پر 2012 میں ایران میں ورلڈ کک باکسنگ چیمپیئن شپ میں شریک ہوا۔ ان مقابلوں میں 100 سے زائد ممالک کے کھلاڑیوں نے شرکت کی۔ جس کیٹگری کے لیے میں نے تیاری کی تھی اس کے بجائے مجھے دوسری کیٹگری میں کھلایا گیا اس کے باوجود میں فائنل تک پہنچا۔’ ان کا کہنا تھا کہ عالمی مقابلہ میں اچھی کارکردگی دکھانے پر ایران سے واپسی پر اس وقت کے وزیراعلیٰ نواب اسلم رئیسانی نے پہلی بار ان کی مدد کی۔ باقی لوگوں نے بھی وعدے کیے مگر پورے نہیں کیے۔ ‘باکسنگ کے کھیل کو جاری رکھنے اور اپنے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے مجھے مزدوری کرنا پڑتی تھی۔ گھر والوں کا بھی دبآ تھا کہ کھیل چھوڑ کر کوئی کام کرو۔’ قلعہ عبداللہ کے علاقے گلستان سے ٹیلیفون پر گفتگو کرتے ہوئے عزت اللہ کے چھوٹے بھائی مصطفی کاکڑ نے اردو نیوز بتایا کہ عزت نو بھائیوں میں سب سے بڑے ہیں۔ انہوں نے بہت مشکل حالات سے گزر کر اور مسلسل جدوجہد کے ذریعے خود کو منوایا ہے۔ وہ کراچی اور کوئٹہ میں مدرسے میں پڑھے اور قرآن حفظ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ خاندان کی طرف سے عزت اللہ پر کھیل چھوڑنے کا بہت دبآ تھا لیکن باکسنگ ان کا شوق ہی نہیں جنون تھا۔ عزت اللہ کاکڑ نے بتایا کہ ‘نیشنل چیمپیئن شپ اور ورلڈ کک باکسنگ چیمپیئن شپ کا رنر اپ رہنے کے باوجود انہیں پاکستان کک باکسنگ ٹیم میں جگہ نہیں دی گئی جس کے بعد انہوں نے مایوس ہوکر آسٹریلیا جانے کا ارادہ کیا۔ اس وقت پورا بلوچستان بدامنی کا بھی شکار تھا۔ آئے روز بم دھماکے ہو رہے تھے۔ کھیلوں کے مقابلے بھی نہیں ہو رہے تھے۔’ عزت اللہ کاکڑ کے مطابق ‘آسٹریلیا پہنچتے ہی ہمیں تحویل میں لے کر پاپوا نیو گنی کے بدنام زمانہ مانوس جزیرہ کے پناہ گزین کیمپ منتقل کیا گیا، جہاں میں اکتوبر2017 میں کیمپ کے بند ہونے تک رہا۔ یہ پانچ سال میری زندگی کے بدترین سال تھے۔ ہم سینکڑوں پناہ گزینوں کو انتہائی غیر موزوں اور غیر انسانی حالات میں رکھا گیا۔’ انہوں نے بتایا کہ ‘وہاں ہمیں کیمپ میں ہی رہنے یا اپنے واپس اپنے ملک منتقل کرنے کے لیے مجبور کیا گیا۔ کسی محفوظ ملک میں نئی اور بہتر زندگی شروع کرنے کا انتظار نا امیدی میں بدل گیا تو ہمارے کئی ساتھیوں نے خودکشی کر لی۔ بڑی تعداد میں لوگ نفسیاتی دباؤ کی وجہ سے بیمار ہو گئے۔ ناامیدی کے ان حالات سے بھی عزت اللہ کاکڑ ایک جنگجو کی طرح لڑے۔ ہمت ہارنے کے بجائے انہوں نے نہ صرف ساتھی پناہ گزینوں کی ہمت بندھائی بلکہ دنیا بھر میں ان کی آواز بھی بنے۔ انہوں نے باکسنگ چیمپیئن کی حیثیت سے آسٹریلوی اور کیوی باکسروں کو چیلنج کرکے میڈیا کی توجہ حاصل کی مگر انہیں ان سے لڑنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ سابق قومی کک باکسنگ چیمپیئن نے بتایا کہ کیمپ میں ہفتے میں چھ دن بغیر کسی کوچ کے اپنی مدد آپ کے تحت ٹریننگ کرکے اپنی فٹنس برقرار رکھی اور انتظار کرتا رہا۔ 2017 میں مانوس کیمپ بند ہونے کے بعد پاپوا نیو گنی کے مرکزی شہر پورٹ مورسبی میں اقوام متحدہ کی دستاویزات پر مزید تین سال پناہ گزین کی حیثیت سے گزاریں۔ عزت اللہ کاکڑ کو اس وقت شہرت ملی جب انہوں نے پناہ گزین کی حیثیت سے پاپوا نیو گنی کے نیشنل کک باکسنگ چیمپیئن سلیمانی تیمانی کو شکست دی۔ پاکستانی مہاجر فائٹر نے ورلڈ کک باکسنگ پیسفک چیمپیئن شپ میں مسلسل 15 مقابلے جیتنے والے کھلاڑی کو دوسرے ہی رآنڈ میں ناک آ?ٹ کیا۔ 2019 اور 2020 میں انہوں نے پاپوا نیو گنی اور فلپائن میں پناہ گزین کی حیثیت سے پاکستان کی نمائندگی کی اور باکسنگ اور کک باکسنگ کے کئی بین الاقوامی مقابلے جیتے۔ تین ہفتوں میں مسلسل تین مقابلے کھیلنے کا اعزاز بھی اپنے نام کیا۔ عزت اللہ کاکڑ کے مطابق ‘اپنے کھیل کے کیریئر کو دوبارہ زندہ کرنا بہت مشکل تھا کیونکہ میری زندگی کے کئی قیمتی سال کیمپ میں تباہ ہو گئے۔ حراستی مرکز میں لمبا عرصہ گزرنے کے باوجود میں نے حوصلہ نہیں ہارا بلکہ کھیل کے ذریعے مشکلات پر قابو پانے کی کوشش کی۔’ ان کا کہنا تھا کہ عالمی سطح پر کئی مقابلے جیتنے کے بعد وہ امریکی امیگریشن حکام کی نظروں میں آئے جنہوں نے پاپوا نیو گنی میں ان کے انٹرویوز کیے اور بلاآخر جون 2020 میں انہیں خصوصی جہاز کے ذریعے امریکہ بلایا۔ ‘امریکہ پہنچ کر آٹھ سال بعد میں نے آزادی محسوس کی۔ یہاں ہمیں برابر کا شہری اور انسان سمجھا گیا جس پر میں امریکہ کا مشکور ہوں۔’ عزت اللہ کاکڑ کے مطابق امریکہ میں وہ ٹرک چلا کر اپنی زندگی کا پہیہ چلا رہے تھے مگر ورلڈ چیمپیئن بننے کا خواب کبھی نہیں چھوڑا۔ اس لیے شمالی کیرولینا میں چار ماہ گزارنے کے بعد امریکی فائٹنگ کا مرکز سمجھے جانے والے فلاڈیلفیا منتقل ہو گئے۔ انہوں نے بتایا کہ فلاڈیلفیا منتقل ہونے کے بعد انہوں نے امریکی بیرناکل فائٹنگ چیمپیئن شپ کے حکام سے مسلسل درخواستیں کیں مگر وہ کہتے تھے کہ یہ کھیل پاکستانیوں کے بس کی بات نہیں۔ مگر مسلسل کوششوں کے بعد چند ماہ قبل بالآخر انہوں نے مجھے موقع دینے کا فیصلہ کیا۔ دو دو منٹ کے پانچ راونڈ ز پر مشتمل بیرناکل فائٹنگ چیمپیئن شپ (بی کے ایف سی ) مقابلے باکسنگ گلوز یا گیئرز کے بغیر کھیلے جاتے ہیں۔ اس لیے یہ مکس مارشل آرٹس یا یو ایف سی سے بھی زیادہ خطرناک کھیل سمجھا جاتا ہے۔ اس میں ناک، جبڑے اور ہاتھ کی ہڈیاں ٹوٹنے کے علاوہ جان جانے کا بھی خطرہ ہوتا ہے۔ موقع ملنے کے بعد پاکستانی نڑاد فائٹر کو تب ایک اور امتحان کا سامنا کرنا پڑا جب مقابلے سے صرف دو ہفتے پہلے جم میں تربیت کے دوران ان کا کندھا اتر گیا۔ عزت اللہ کاکڑ کے بقول ‘جم ٹرینر نے مجھے نہ لڑنے کا مشورہ دیا لیکن میں نے اپنے کوچ کو چوٹ کے بارے میں بتائے بغیر مقابلہ کھیلا اور جیتا کیونکہ میں یہ آخری موقع گنوانا نہیں چاہتا تھا۔ یہ مقابلہ ایک طرح سے میں نے صرف ایک ہاتھ سے کھیلا۔’ مقابلہ جیتنے کے بعد وہ اپنے جذبات پر قابو نہ پا سکیں اور خوب رو کر دل کا غبار اور اس دکھ کو کم کیا جس کا انہیں گذشتہ نو سالوں سے سامنا تھا۔ ‘یہ طویل عرصہ میں نے خاندان کے بغیر گزرا۔ میں نے اپنی 29 سال کی زندگی میں17 سال مسلسل جدوجہد میں گزارے۔’ ‘مسلسل نظر انداز کرنے اور تمام مشکلات کے باوجود پاکستان کا جھنڈا لہرانا نہیں چھوڑا۔ میں نے پاپوا نیو گنی کے حراستی کیمپوں میں پاکستان کا پرچم بلند کیا اور اب امریکہ کے حالیہ مقابلے میں بھی سیاہ اور سفید شارٹس پر ایک جانب پاکستان اور دوسری جانب امریکی پرچم بنوایا۔’ عزت اللہ کاکڑ کا کہنا تھا کہ جب میں لڑائی کے لیے میدان میں اتر اتو تب میرے پاس کچھ نہیں تھا۔ مقابلہ جیت کر مجھے یقین نہیں آیا کہ میں نے یہ کردکھایا۔ میں ثابت کرنا چاہتا تھا کہ میں کیا کرسکتا ہوں اور میں نے ثابت کردکھایا۔ میں نے اپنے خاندان کے ان افراد اور پاکستان میں کھیلوں کے حکام کے سامنے خود کو ثابت کیا جنہوں نے ہمیشہ میری حوصلہ شکنی کی۔ ان کا کہنا تھا کہ ‘میں نے یہ مقابلہ کچھ وجوہات کی بنا پر لڑا۔ میں چاہتا ہوں کہ امریکہ یا دنیا کے باقی ممالک میرے ان دوستوں کو بھی پناہ اور نئی زندگی جینے کا حق دیں جو گذشتہ نو، 10 سالوں سے آسٹریلوی پناہ گزین کیمپوں میں قید ہیں۔’ ان کا کہنا تھا کہ بی کے ایف سی کے ساتھ وہ مزید تین مقابلوں کا کنٹریکٹ کرنے جارہے ہیں۔ ‘ہر قسم کے سخت حالات کا مقابلہ کیا جائے تو حالات بدل ہی جاتے ہیں۔ میں اپنے کھیل کو دوبارہ عروج تک پہنچانتا چاہتا ہوں۔’ عزت اللہ کاکڑ کے مطابق پاکستان میں ان سے اچھے کھلاڑی سرپرستی اور مدد نہ ملنے کی وجہ سے نظر انداز اور ضائع ہو رہے ہیں۔ حکومت کو اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ تعلیم اور کھیل کے ذریعے ہی ہم تبدیلی لا سکتے ہیں اور ملک اور دنیا کا مثبت چہرہ دنیا کو دکھا سکتے ہیں۔