فیضان محدّث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ

0
14

فیضان محدّث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ

محترم قارئین! حضرت امام زین العابدین علی بن حسین بن علی رضی اللہ عنھم کی کفیت ابومحمد اور ابوالحسن ہے۔ لقب سجاد اور زین العابدین اور بیمار کربلا ہے۔ آپ کی ولادت مدینہ طیبہ میں25جمادی لاولیٰ٥٣٨کو ہوئی۔ آپ کی والدہ ماجدہ کا نام شہر بانو بنت یزدجر ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ ابھی تین سال کے نہ ہوئے تھے کہ آپ کے دادا جان حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوگئی۔ واقعہ کربلا کے وقت آپ کی عمر مبارک٢٣سال تھی۔ یہ بھی آپ کا امتحان تھا کہ واقعہ کربلا کے وقت آپ بیمار ہوگئے تھے۔ واقعہ کربلا کے وقت اور بعد کے تمام صدمات آپ نے برداشت کئے۔ صبروتحمل کا شاندار اور فقیدالمثال مظاہرہ فرمایا، جب یزید پلید نے دمشق میں کربلا کے قیدیوں کے بارے میں مشورے لئے کہ بتائو اب ان کا کیا کیا جائے۔ آیا ان سب کو قتل کر دیا جائے یا قید میں رکھا جائے یا رہا کر دیا جائے۔ اس کے حواریوں نے اسے طرح طرح کے مشورے دیئے اکثر نے رائے یہ دی کہ ان سب کو قتل کر دیا جائے۔ سّیدنا امام زین العابدین رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے یزید! تیرے درباریوں نے تجھے وہ مشورہ دیا ہے جو فرعون کے درباریوں نے بھی نہیں دیا تھا۔ اس نے حضرت موسیٰ و ہارون علیھا السّلام کے متعلق دریافت کیا تھا کہ مجھے ان کے متعلق کیا کرنا چاہئے؟ تو اس کے درباریوں نے اُسے کہا کہ ان کو قید کر ڈالو لیکن یہ تو اس سے بھی بدتر ثابت ہوئے جو اسیران آل رسولۖ کے قتل کرنے کا تجھ کو مشورہ دے رہے ہیں۔ امام زین العابدین رضی اللہ عنہ بہت زیادہ متقی اور پرہیز گار تھے۔ جب وہ فرماتے تو خوف خدا سے رنگ زرد ہو جاتا۔ عرض کیا گیا کہ آپ کی یہ حالت کیوں ہوجاتی ہے؟ فرمایا تم جانتے نہیں ہو میں کس ذات کے آگے کھڑا ہو رہا ہوں؟آخر دم تک آپ رضی اللہ عنہ ہر روز فرض نماز کے علاوہ ایک ہزار نوافل ادا فرماتے رہے۔ آپ کے اخلاق عالیہ کے بارے میں آتا ہے کہ آپ ایک مرتبہ مسجد سے باہر تشریف لائے تو ایک شخص سے آپ کی ملاقات ہوگئی جس نے آپ کی شان میں گستاخانہ الفاظ کہے۔ آپ کے غلام اس گستاخ کی طرف لپکے تو آپ نے ان کو روک لیا اور فرمایا: اے شخص ہمارے حالات کا تو بہت حصہ تجھ سے مخفی ہے اگر تجھ کو کوئی حاجت ہے تو بیان کرتا کہ ہم تیری معاونت کرسکیں پھر آپ نے اس کو اپنا جبہ مبارک اور پانچ ہزار درھم دیئے اور اس کو یہ دیکھ کر حیا آئی تو اس نے کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ واقعی اولاد رسولۖ ہیں۔ امام زہری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت علی بن حسین رضی اللہ سے عنھا کو دیکھا کہ عبدالملک بن مروان کے حکم سے ان کے پائوں باندھے ہوئے تھے، ہاتھوں میں زنجیریں تھیں۔ اور گردن میں طوف ڈالے گئے تھے اور ان پر پاسبانوں کو مقرر کیا گیا تھا۔ میں انہیں سلام ووداع کرنے کے لئے گیا آپ اس وقت ایک خیمہ میں تھے۔ میں انہیں اس حال میں دیکھ کر رو دیا اور کہا کہ کیا ہی اچھا ہوتا اگر آپ کی جگہ مجھے پابند سلاسل کردیا جاتا اور آپ سلامت رہتے۔ آپ نے فرمایا: اے زہری! تو سمجھتا ہے کہ میں ان طوق وسلاسل سے تکلیف میں ہوں؟ اگر میں چاہوں تو یہ فوراً اتر جائیں۔ مگر ایسی مثالیں رہنی چاہئیں تاکہ تم عذاب خداوندی کو یاد رکھو اور محشر میں تم پر آسانیاں واقع ہوں۔ اس کے بعد آپ نے زنجیر کو ہاتھ سے اتار پھینکا اور پائوں کو پھندے سے آزاد کرلیا پھر فرمایا: اے زہری! میں ان کے ساتھ اس حال میں دو منزلوں سے زیادہ نہ جائوں گا۔ جب چار دن گزرے تو آپ کے پاسبان مدینہ منورہ واپس آگئے۔ پھر آپ کو مدینہ بلاتے رہے مگر آپ کو نہ پاسکے۔ امام زہری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد میں عبدالملک بن مروان کے پاس گیا تو اس نے مجھ سے امام زین العابدین رضی اللہ عنہ کا حال دریافت کیا، مجھے جو علم تھا میں نے اس کے مطابق کہہ دیا۔ وہ کہنے لگا جس وقت میرے گماشتوں نے انہیں گم کردیا تو وہ میرے پاس چلے آئے اور کہنے لگے: میرے اور تمہارے درمیان کون سی چیز واقع ہوئی ہے؟ میں نے کہا ذرا ٹھہرئیے، تو آپ نے فرمایا میں بالکل نہیں ٹھہروں گا۔ پھر آپ باہر چلے گئے اور خدا کی قسم میں ان کے دبدبہ وجلال سے ڈر گیا۔
آپ چڑیوں کی تسبیح پہچان جاتے تھے۔ چنانچہ ایک مرتبہ لوگ چڑیوں کو ذبح کر رہے تھے کہ چڑیاں چیخ رہی تھیں۔ آپ نے سن کر فرمایا: یہ چڑیاں اللہ کی تقدیس بیان کر رہی ہیں اور انہوں نے آج کی روزی طلب نہیں کی۔ ایک رات ایک آدمی کہہ رہا تھا دنیا کے زاہد اور آخرت کے راغب کہاں ہیں؟ تو اس کو جنت البقیع کی طرف سے غائبانہ آواز آئی”علی بن حسین” ہیں ایک دن آپ کی اونٹنی راہ میں سستی وکاہلی کرنے لگی۔ آپ نے اسے بٹھا دیا۔ اور اسے تازیانہ یا عصا دکھا کر کہا! تیز تیز چلو ورنہ تمہیں اس تازیا نے سے سزا دوں گا۔ اونٹنی نے تیز چلنا شروع کردیا اور اس کے بعد سستی سے کام نہ لیا۔ ایک دن آپ اپنے ساتھیوں کے ساتھ صحرا میں بیٹھے تھے کہ ناگاہ ایک ہرنی آگئی اور آپ کے متصل کھڑی ہوگئی اور اپنا پائوں زور سے زمین پر مار کر چیخنے لگی حاضرین نے پوچھا! اے بن رسول! یہ ہرنی کیا کہتی ہے؟ آپ نے فرمایا: یہ کہتی ہے کہ فلاں قریشی کل میرا بچہ اٹھا لایا ہے میں نے کل سے دودھ نہیں پلایا۔ تصدیق پر ظاہر ہوا کہ مذکور قریشی نے واقعی یہ کام کیا تھا۔ بس اللہ پاک نے آپ کو بہت بڑا مقام عطا فرمایا تھا آپ نے اپنی ساری زندگی صبروتحمل اور عبادت وریاضت میں گزاری۔ اللہ تعالیٰ آپ کے درجے بلند فرمائے اور آپ کے فیضان سے ہمیں وافر حصہ عطا فرمائے(آمین)۔
٭٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here