”ایمانداری اور خودداری”

0
11

ایک سوداگر نے بازار میں گھومتے ہوئے ایک عمدہ نسل کا اونٹ دیکھا سوداگر اور اونٹ بیچنے والے کے درمیان کافی دیر تک گفت و شنید ہوئی اور آخرکار سوداگر اونٹ خرید کر گھر لے آیا۔گھر پہنچ کر سوداگر نے اپنے نوکر کو اونٹ کی زین اتارنے کے لئے بلایا نوکر کو زین کے نیچے ایک مخملی تھیلا ملا جسے کھولنے پر قیمتی ہیروں اور جواہرات سے بھرا ہوا پایا۔
نوکر چلا کر بولا!آقا آپ نے اونٹ خریدا ہے، لیکن دیکھیں مفت میں کیا آیا؟سوداگر بھی حیران ہوا، اس نے اپنے نوکر کے ہاتھ میں ہیرے دیکھے جو چمک رہے تھے اور سورج کی روشنی میں اور بھی زیادہ جھلملا رہے تھے۔سوداگر نے کہا کہ میں نے اونٹ خریدے ہیں، ہیرے نہیں، مجھے انہیں فورا واپس کر دینا چاہئے۔ دل میں سوچ رہا تھا کہ میرا آقا کتنا بیوقوف ہے،بولا مالک کسی کو کچھ پتا نہیں چلے گا ،ہیرے رکھ لیں لیکن تاجر نے ایک نہ سنی اور وہ فوری بازار پہنچا اور اونٹ والے کو تلاش کر اس کو مخمل کا تھیلا واپس کر دیا۔
اونٹ بیچنے والا بہت خوش ہوا، کہنے لگا میں بھول گیا تھا کہ میں نے اپنے قیمتی پتھروں کو کہاںچھپا رکھا ہے۔
اب آپ کسی ایک ہیرے کو بطور انعام منتخب کر سکتے ہیں سوداگر نے کہا کہ میں نے اونٹ کی صحیح قیمت ادا کر دی ہے اس لئے مجھے کسی شکریہ اور انعام کی ضرورت نہیں۔سوداگر نے جتنا انکار کیا، اونٹ بیچنے والے نے اتنا ہی اصرار کیا۔آخرکار تاجر مسکرایا اور کہا کہ حقیقت میں جب میں نے تھیلی واپس لانے کا فیصلہ کیا تو میں نے پہلے ہی دو قیمتی ہیرے اپنے پاس رکھ لئے تھے۔اس اعتراف کے بعد اونٹ بیچنے والے کو غصہ آگیا، اس نے فورا ہیرے اور جواہرات گننے کے لئے تھیلا خالی کردیالیکن اس نے بڑی اُلجھن میں کہا کہ میرے سارے ہیرے یہاں ہیں، تو سب سے قیمتی دو کون سے تھے جو تم نے رکھ لئے؟سوداگر نے کہا کہ میری ایمانداری اور میری خوداری۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here