مؤثر بارڈر مینجمنٹ وقت کی ضرورت!!!

0
4

پندرہ اگست 2021 کو جب طالبان نے دوحا معاہدے کے تحت کابل کا کنٹرول حاصل کیا، تو اس وقت کی پاکستانی حکومت اور انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کی قیادت اور دانشوروں نے مسرت کا اظہار کیا، اس وقت کے وزیراعظم نے تو اعلان کیا کہ طالبان نے غلامی کی زنجیریں توڑ دی ہیں جب کہ طالبان کے پاکستان میں موجود ساتھیوں نے یہ کہنا شروع کردیا گیا کہ اب افغانستان میں موجود دہشت گرد وں کا خاتمہ ہوجائے کیونکہ طالبان افغانستان میں قائم بھارت کے تربیتی کیمپ اور قونصلر آفس ختم کردیں گے ۔طالبان کے حامی اہل قلم اور تنظیموں کے کارکنوں نے بھارت کو یہ کہتے ہوئے دھمکانا شروع کر دیا کہ پہلے کابل فتح کیا تھا، اب کشمیر فتح کریں گے یہ پاکستانی عوام میں یہ پراپگنڈا کرتے رہے کہ افغان طالبان پاکستان کے حامی اور ہمدرد ہیں بلکہ ہمارے بھائی ہیں۔ افغانستان کے طالبان نے گزشتہ روز پاکستانی چیک پوسٹوں پر بڑے ہتھیاروں سے بلااشتعال فائرنگ کی ہے۔ پاکستان کی جوابی کارروائی میں آٹھ افغان طالبان ہلاک اور سولہ زخمی ہوگئے، مرنے والوں میں دو اہم کمانڈر بھی شامل ہیں۔ پاکستانی سرحدی چیک پوسٹوں، سیکیورٹی اہلکاروں، پولیس اور مختلف چوکیوں و تھانوں پر حملہ کرنے والوں کے پاس جدید ترین اسلحہ ہوتا ہے، یہ اسلحہ نیٹو افواج نے افغانستان سے انخلا کرتے ہوئے وہیں چھوڑ دیا تھا، اس کے علاوہ حامد کرزئی اور اشرف غنی کی حکومتوں کے دور میں امریکا نے افغان نیشنل آرمی تیار کی تھی اور اس افغان فوج کو امریکا اور برطانیہ نے جدید اسلحہ سے لیس کیا تھا۔افغان نیشنل آرمی نے اپنی روایت کے عین مطابق بغیر لڑے ہتھیار ڈال دیے اوران فوجیوں کی بڑی تعداد گھروں چلی گئی اور جو بچ گئے وہ طالبان کے ساتھ مل گئے۔یوں یہ سارا اسلحہ افغان طالبان کی تحویل میں آگیا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ افغان طالبان کے زیر کنٹرول یہ جدید اسلحہ ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کے پاس کیسے آیا، ظاہر ہے طالبان انتظامیہ کی امداد کے بغیر یہ ممکن ہی نہیں ہے۔ دوسری جانب افغانستان کی عبوری طالبان حکومت نے پاکستان کے تحفظات پر کبھی توجہ نہیں دی بلکہ ٹی ٹی پی کی حمایت اور پشت پناہی کی گئی جو آج بھی جاری ہے اور یہ سب کچھ کھلے عام ہورہا ہے۔ یہاں پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کی حکومت کے بارہا احتجاج کے باوجود افغان سرزمین پاکستان کے خلاف مسلسل کیوں استعمال ہو رہی ہے؟ حالیہ حملہ اس بات کا ٹھوس ثبوت ہے کہ پاکستانی سرحد اور پاکستان کے اندر دہشت گرد کارروائیوں کی کڑیاں افغانستان سے ہی ملتی ہیں۔ تاہم، کچھ عرصے بعد ہی طالبان نے پاکستانیوں کی یہ خوش فہمی یہ بیان جاری کرکے دور کردی کہ کشمیر بھارت اور پاکستان کا باہمی تنازع ہے اور افغان طالبان لڑنے کے لیے کشمیر نہیں جائیں گے۔ افغان طالبان نے اقتدار حاصل کرنے سے پہلے کی جیلیں توڑ ٹی ٹی پی کے گرفتار دہشت گردوں کو فرار کرادیا اور بعد میں پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان کے دہشت گردوں کو جیل سے با عزت رہا کرنے کا اعلان کردیا۔ پاکستان کی پاپولر سیاسی جماعتوں سوائے تحریک انصاف اور ایک دو مذہبی جماعتوں کے باقی پاپولر سیاسی قیادت اور اہل قلم نے پاکستانی حکومت کی طالبان دوست پالیسی کی مخالفت کی تھی اور بھیانک اور خطرناک نتائج کے بارے میں آگاہ کیا تھا جو اب سچ ثابت ہوا ہے۔ افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان میں دہشت گردی میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ پاکستانی سیکیورٹی فورسز اور بے گناہ شہریوں کی شہادت کے باوجود کئی نام نہاد دفاعی اور سیاسی تجزیہ کار، تحریکِ انصاف کی قیادت، مذہبی سیاسی جماعتوں کی قیادت اور بعض دینی شخصیات چونکہ چنانچہ اور اگر مگر کا ہتھیار استعمال کرتے ہوئے آج بھی طالبان کی حمایت کرتی ہیں۔ پاکستان میں موجود طالبان کے حمایتی یہ دلیل دیتے تھے کہ اگر نیٹو افواج افغانستان سے چلی جائیں اور طالبان برسرِ اقتدارآجائیں، تو پاکستان میں بھی امن قائم ہو جائے گا، مگر موجودہ حالات اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ طالبان کے اقتدار میں آنے سے پاکستان کا بچا کھچا امن بھی تباہ ہو چکا ہے ، پاک افغان سرحد اور پاک ایران سرحد سے غیرقانونی تجارت اور خطرناک ممنوعہ چیزوں کی اسمگلنگ نے پاکستان کی معیشت کا بیڑا غرق کردیا ہے ۔ افغانستان کی طالبان حکومت نے اپنی جانب سے اس غیرقانونی اور ممنوعہ خطرناک مصنوعات کی اسمگلنگ روکنے کی کوئی کوشش نہیں کی ہے ۔ پاکستان میں دہشت گردی کی بڑھتی لہر میں افغانستان کی نرم پالیسی کا مرکزی کردار رہا ہے، پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتوں میں افغان باشندوں کی شرکت پائی گئی ہے، کئی خود کش افغانستان سے پاکستان میں داخل ہوئے ۔ پاکستان کے شمال مغربی علاقے اپنی پسماندگی اور چند بااثر لوگوں کی وجہ سے دہشت گردوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ بنے ہوئے ہیں۔ پاکستان کے امن عمل کے کردار کو دیکھتے ہوئے قوی امید تھی کہ افغانستان میں طالبان کی عبوری حکومت آنے کے بعد پاکستان میں دہشت گرد کارروائیوں کا سلسلہ ختم ہوجائے گا اورکابل انتظامیہ پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات اور دوستی کی راہ ہموار کرے گی مگر بدقسمتی سے کابل کی طالبان انتظامیہ کی جانب سے بھی حامد کرزئی اور اشرف غنی کی کٹھ پتلی حکومتوں والا رویہ ہی سامنے آرہا ہے ۔ پاکستان کو کالعدم تنظیموں کے لیے دستیاب پناہ گاہوں اور افغان سرزمین سے آزادانہ کارروائیوں پر تحفظات ہیں۔ دہشت گردی کی ناکام کارروائیاں اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہیں کہ سیکیورٹی فورسز دشمن کے عزائم کو ناکام بنا رہی ہیں۔ لہذا افغانستان کی عبوری حکومت کو دوحا معاہدے میں کیے گئے عہد وپیماں پر عمل کرنا چاہیے۔پاکستان افغانستان کا ہمدرد ہے۔ پاکستان افغان حکومت سے کہتا رہا ہے سرحد کے اطراف موثر بارڈر مینجمنٹ یقینی بنائے کیونکہ بارڈر مینجمنٹ نہیں ہوگی تو دونوں ملکوں کے لیے مشکلات ہوں گی۔ اگر کابل انتظامیہ اپنی روش پر قائم رہی تو خدشہ یہ ہے کہ اقوام عالم میں اس کے بارے میں جو تھوڑی بہت ہمدردی موجود ہے، وہ بھی ختم نہ ہوجائے۔ اگر پاکستان کی بارہا شکایات کے باوجود افغانستان کی حکومت ٹس سے مس نہیں ہورہی تو پاکستان کو اپنے شہریوں اور سرحد کا دفاع کرنا آتا ہے۔ افغانستان کی طالبان حکومت کو ٹی ٹی پی ، داعش یا القاعدہ کے خلاف کریک ڈاون کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے تو انھیں اس ایشو پر پاکستان اور دیگر ریجنل پاورز کو اعتماد میں لینا چاہیے تاکہ مشکلات کا حل نکالا جاسکے۔پاکستان اپنی سرزمین پر خوارج کے حملوں سے نمٹنے کی موثر کارروائیوں کے ساتھ سفارتی کاوشیں بھی بروئے کار لا رہا ہے۔ پاکستان کو افغانستان کی مخالفت کا سامنا چودہ اگست سے پہلے سے ہی ہے۔ پاکستان کی اقوام متحدہ میں رکنیت کی مخالفت افغانستان نے کی۔ 1960 اور 1961کے دوران افغانستان نے جارحیت بھی کی۔ حکومتِ پاکستان کو افغانستان کے عزائم کا ادراک ہوا، تو جوابی کارروائی کی وجہ سے افغان فورسزکو پسپا ہونا پڑا۔ پاکستان میں ہونے والی دہشت گرد کارروائیوں کی کڑیاں افغانستان سے ہی ملتی ہیں۔ آج بھی افغانستان کی طالبان حکومت نے بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات استوار کررکھے ہیں۔ بھارت کے پالیسی سازوں کے مائنڈ سیٹ کی المناکی دیکھیے کہ وہ پاکستان کے ڈائیلاگ پر تیار نہیں لیکن افغانستان کے ساتھ اچھے تعلق رکھتا ہے حالانکہ پاکستان نے ہمیشہ بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات کی بات کی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ دنیا ایک اور نائن الیون رونما ہونے کا انتظار کرنے کے بجائے اس کی روک تھام کی تدابیر کرے۔ علاقائی اور عالمی فورموں کو افغانوں کے معاشی مسائل سمیت کئی امور پر معاونت کرنی چاہئے جب کہ افغانستان سے مختلف ملکوں کے تجارتی تعلقات کو دہشت گردی روکنے کے اقدامات سے مربوط کرکے بھی پناہ گزینوں کے سیلاب سمیت نئے بحران سے بچنے کی کوششیں کی جاسکتی ہیں۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here