میری حیرت کی انتہا !!!

0
9
سردار محمد نصراللہ

قارئین وطن ! سب سے پہلے تو میرے قارئین کو اور اہل وطن اور امریکہ میں بسنے والے مسلمانوں کو عید الفطر کی بہت بہت مبارک ،نیو یارک میں آدھی مسجدوں میں عید الفطر اتوار کو منائی گئی اور آدھی مسجدیں بروز پیر عید سعید کی خوشیاں منائیں گئیں ،ہماری مسجدیں بھی کمپنیاں بن گئی ہیں، خیر چاند رات سب نے ایک ہی دن منائی بروز ہفتہ میرے بچوں نے چونکہ وہ نور مسجد کے زیر اثر ہیں نے عید پیر کو منائی اور ہم ان سے گلے ملنے سے معذور رہے کہ ہم نے دفتر پہنچنا تھا خیر عالم عرب نے ایک ہی روز عید سعید کی خوشیاں منائیں جبکہ غزہ میں قیامت صغریٰ کا منظر تھا کاش ہم کو علامہ کے اس مصرعہ کی سمجھ آ جائے!
عصا نہ ہو تو کلیمی ہے کارِ بے بنیاد !
ورنہ جو حال ہے غزہ کا ہمارا وجود اور ذہنیت مسمار ہوتی نظر آتی ہے اللہ رحم فرما بیچارے مسلمانوں پر آمین!
قارئین وطن! دو تین دن پہلے ایک کلپ پر نظر پڑی ریٹائیرڈ جرنل کرامت اور سابق فارن سیکٹری شمشاد خان صاحب کی تصویر دیکھی تو ان کے خیالات سننے کا دل چاہا کہ شمشاد صاحب کے دل میں پاکستان اور اس کی زبو حالی کا درد میں نے پہلے بھی محسوس کیا تو سوچا کہ اب کیا کہہ رہے ہیں – میری حیرت کی انتہا تھی جب میں نے جرنل کرامت کا جمہوریت کے لئے لمبا چوڑا بھاشن سنا میرے ذہن رسا میں ایک دم جسٹس سجاد علی شاہ صاحب کا نام اور جمہوریت کے بچا کے لئے جرنل کرامت کو پکارنیں والی چیخیں میرے بوڑھے کانوں میں چیخنے لگیں کہ جسٹس صاحب کے کورٹ پر اس وقت کے پرائم منسٹر میاں نواز شریف اور چھوٹے بھائی شہباز شریف چیف منسٹر پنجاب کے غنڈوں اور چمچوں نے ہلہ بولا تھا چیف جسٹس صاحب نے جرنل کرامت کو کورٹ کی مدد کے لئے پکارا تو موصوف فرمانے لگے کے مجھے جب تک ڈیفنس سیکٹری کی جانب سے درخواست نہیں آئے گی میں کوئی اقدام نہیں کر سکتا واہ میرے جرنل تیرے انتظار نے سپریم کورٹ کے ججوں کی نہ صرف دوڑ لگوائی بلکہ سپریم کورٹ کی ساکھ کو رول دیا جس طرح میں جرنل نیازی نے پاکستان کی ساکھ کو رول دیا – مجھے آج بھی اچھی طرح یاد ہے کہ شہباز شریف نے اسی دورِ کرامتی میں جرنل صاحب سے درخواست کی کہ لاہور میں پاگل کتوں کا راج ہو گیا ہے تو ڈر ہے کہ کہیں مجھ کو ہی ٹیکے نہ لگوانے پڑ جائیں جرنل صاحب نے ایک ڈویژن فوج پاگل کتوں کو مارنے کے لئے روانہ کردی اگر جرنل کرامت صاحب تھوڑی سی جرات دکھاتے اور سپریم کورٹ کی حفاظت فرماتے تو آج فارم کی حکومت نہ دیکھنی پڑتی قوم کو –
قارئین وطن! عالم شباب کے دنوں ہمارے ایک دوست لائل پور کے رانا صاحب کنسٹرکشن کے بزنس میں ہوا کرتے تھے آج کل وہ پاکستان چلے گئے ہیں ان کے پاس دولت کی کمی نہ تھی اس لئے ان کے شوق بھی بڑے بڑے تھے ان کو نام و نمود کا بڑا شوق تھا اس لئے پاکستان سے نام ور شخصیات کو امریکہ مدعو کیا کرتے تھے اور پھر ان بڑے لوگوں کی نمائش کولمبیا یونیورسٹی اور بڑے ہوٹلوں میں کرتے تھے مجھے یاد ہے کہ میں کولمبیا یونیورسٹی میں ان کے دو فنگشنوں میں شریک ہوا تھا ایک پاکستان سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اگر حافظہ صحیح کام کر رہا ہے تو ارشاد حسن خان صاحب اور دوسرے جرنل کرامت میں نے رانا صاحب کو نوٹوں کو آگ لگا کر یا اچھال کر اپنے معزز مہمانوں کی پگڑیاں گراتے دیکھیں ان میں جسٹس ارشاد خان صاحب ایک تھے دوسرے جرنل کرامت کی جب وہ جمہوریت کی تعریف کر رہے تھے تو میں نے ان سے سوال کیا کہ حضور جس وقت جسٹس سجاد علی شاہ صاحب نے آپ کو سپریم کورٹ کی امداد کے لئے بلویا تو آپ نے ڈیفنس سیکٹری کے خط کے انتظار میں عمر گزار دی آپ کو بھی معلوم تھا کہ خط کبھی آنا نہی کہ وہ نواز شریف کا ملازم ہے سرکار کا نہیں لہازا جو ہو رہا ہے ہونے دو اور اس طرح سپریم کورٹ کی بربادی کا ایک اور باب ختم ہوا- پھر میں نے جرنل صاحب سے کتوں والی بات پوچھی تو وہ (Animal lover)بن گئے –
قارئین وطن! حیرت مجھے اس بات کی ہے کہ مجھے ملک تو یاد نہیں کے ٹینکوں کے سودے میں رشوت بٹورنے والے جرنل کرامت جس نے جمہوریت کے بچا کے بجائے نواز شریف کی ایک دھمکی پر استعفی دے کر چلے گئے آج کس منہ سے جمہوریت کی حمایت کر رہے ہیں کیا اس میں بھی کوئی منافقت ہے بقول ہمارے دوست لودھی کے کہ سردار صاحب اگر کل کا بگڑا آج توبہ کرلے تو اس کو اچھا سمجھو کہ نیت تو اللہ جانتا ہے اب جرنل عاصم کو اپنے پیش رو جرنل کرامت کی بات مان لینی چاہئے اور فری اینڈ فئیر الیکشن کروا دینے چاہئے کہ ملک کی بقا اسی میں ہے پاکستان زندہ باد !
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here