امریکہ کے پاکستانی انتخابات میں بے ضابطگیوںکے الزامات مسترد

0
9

اسلام آباد (پاکستان نیوز)پاکستان نے امریکی کانگریس کا ملک کے انتخابات میں بے ضابطگیوں کے الزامات کی تحقیقات کا مطالبہ مسترد کردیا۔ترجمان دفترخارجہ ممتاز زہرا بلوچ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ منظور کردہ قراردادپاکستان میں سیاسی صورتحال، انتخابی عمل سے نامکمل واقفیت کا نتیجہ ہے۔اس میں کہا گیا کہ ایسی قرار دادیں تعمیری ہیں اور نہ ہی بامقصد، پاکستان دنیا کی دوسری بڑی پارلیمانی جمہوریت اور پانچواں بڑا جمہوری ملک ہے۔ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ پاکستان آئین اورانسانی حقوق کواہمیت دینیکا عزم کیے ہوئے ہے۔ممتاز زہرہ بلوچ نے کہا کہ اس مخصوص قرارداد کا وقت اور سیاق و سباق پاکستان اور امریکا کے دوطرفہ تعلقات کے مثبت پہلوؤں سے مطابقت نہیں رکھتے، اور اس کی وجہ پاکستان میں سیاسی صورت حال اور انتخابی عمل کی ناقص سمجھ بوجھ ہے۔دفتر خارجہ نے کہا کہ ہمیں امید ہے کہ امریکی کانگریس پاکستان اور امریکا کے تعلقات کو مضبوط بنانے میں معاون کردار ادا کرے گی اور باہمی تعاون پر توجہ مرکوز کرے گی جس سے ہمارے عوام اور ممالک دونوں کو فائدہ پہنچے گا۔واضح رہے کہ دفتر خارجہ کی جانب سے یہ بیان ایسے وقت میں سامنے ا?یا ہے جب کہ امریکا کے ایوان نمائندگان نے 8 فروری 2024 کو پاکستان میں ہونے والے عام انتخابات میں ووٹنگ کے بعد ہیر پھیر کے دعووں کی غیر جانبدار تحقیقات کے حق میں قرارداد کو بھاری اکثریت سے منظور کرتے ہوئے جنوبی ایشیا کے ملک کے جمہوری عمل میں عوام کی شمولیت پر زور دیا تھا۔پاکستان کے گزشتہ عام انتخابات پولنگ کے دن ملک بھر میں موبائل انٹرنیٹ کی بندش، مہم کے دوران گرفتاریوں، تشدد اور نتائج سامنے آنے میں غیر معمولی تاخیر سے متاثر ہوئے، یہ عوامل ان الزامات کا باعث بنے کہ انتخابات غیر شفاف تھے۔انتخابات میں دھاندلی کا معاملہ سب سے زیادہ قوت کے ساتھ سابق وزیر اعظم عمران خان کی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے اٹھایا گیا جس کے رہنماؤں کو اپنا انتخابی نشان ‘بلا’ چھن جانے کے باعث عام انتخابات میں آزاد حیثیت سے شرکت کرنی پڑی جبکہ قانونی جنگ کے بعد الیکشن اتھارٹی کی جانب سے پارٹی کے انٹرا پارٹی انتخابات کو غلط قرار دیا گیا۔پولنگ کے دوران عمران خان سمیت پی ٹی آئی کی قیادت پابند سلاسل تھی لیکن اس کے حمایت یافتہ امیدوار سب سے زیادہ تعداد میں کامیاب ہوکر قومی اسمبلی میں پہنچے۔امریکی ایوان میں 7 کے مقابلے میں 368 امیدواروں نے اس قرارداد کے حق میں ووٹ دیا جس میں مداخلت اور بے ضابطگیوں کے دعووں کی مکمل اور آزادنہ تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا۔قرار داد میں پاکستان کے لوگوں کو ملک کے جمہوری عمل میں حصہ لینے کی کوشش کو دبانے کی کوششوں کی مذمت کی گئی، ان کوششوں میں ہراساں کرنا، دھمکانا، تشدد، بلا جواز حراست، انٹرنیٹ اور مواصلاتی ذرائع تک رسائی میں پابندیوں یا ان کے انسانی، شہری اور سیاسی حقوق کی خلاف ورزی شامل ہے۔ہاؤس ریزولوشن 901 میں کہا گیا کہ یہ قرارداد جمہوریت اور انسانی حقوق کے حوالے سے حمایت کے اظہار کے لیے ہے۔قرار داد میں پاکستانی حکومت پر زور دیا گیا کہ وہ جمہوری اور انتخابی اداروں، انسانی حقوق اور قانون کی بالادستی برقرار رکھے، اس میں کہا گیا کہ حکومت قانونی طریقہ فراہم کرنے کی بنیادی یقین دہانی، صحافت کی آزادی، جلسہ کرنے کی آزادی اور پاکستان کے عوام کی آزادی اظہار رائے کا احترام کرے۔قرار داد میں پاکستان کے سیاسی، انتخابی یا عدالتی عمل پر اثر انداز ہونے کی ہر کوشش کی مذمت کی گئی۔اس پیش رفت پر رد عمل دیتے ہوئے واشنگٹن میں موجود ولسن سینٹر میں ساؤتھ ایشیا انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر مائیکل کگلمین نے کہا کہ قرارداد کے حق میں دیے جانے والوں ووٹوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔سماجی رابطے کی ویب پر جاری اپنے ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ ایوان کے ’85 فیصد اراکین نے اس پر ووٹنگ میں حصہ لیا، ووٹنگ کرنے والوں میں سے 98 فیصد نے اس قرارداد کے حق میں ووٹ دیا، یہ بہت اہم بات ہے’۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here