پاکستانی سیاسی منظر نامے میں اس وقت سب کی توجہ آئندہ الیکشن پر مرکوز ہے کہ حکومت نگران حکومت کو الیکشن کے انعقاد کے لیے 60 دن کا وقت دے گی یا کہ 90دن کا ، اگر موجودہ حکومت اسمبلیاں تحلیل کیے بغیر اپنی مدت پوری کرتی ہے تو نگران حکومت 60دن میں الیکشن کرانے کی پابند ہو گی جبکہ اگر موجودہ حکومت مقررہ وقت سے قبل اسمبلیاں تحلیل کرتی ہے تو نگران حکومت کو 90روز میں الیکشن کرانا ہوگا۔2018 کے عام انتخابات کے نتیجے میں تشکیل پانے والی موجودہ قومی اسمبلی کی مدت 13 اگست 2018 سے شروع ہوئی تھی اور پانچ سال کی مقررہ مدت مکمل کرنے کے بعد یہ 12 اگست 2023 کی رات 12 بجے تحلیل ہو جائے گی۔
قومی اسمبلی کے علاوہ چار میں سے دو صوبائی اسمبلیوں کی قانونی مدت بھی اگست 2023 میں ختم ہو رہی ہے جس کے بعد آئین کے مطابق دو ماہ یعنی اکتوبر 2023 تک ملک میں ان اسمبلیوں کے لیے ارکان کا انتخاب ہونا لازم ہے۔اس مدت میں اضافہ اس صورت میں ضرور ممکن ہے کہ اسمبلیاں مدت پوری ہونے سے قبل تحلیل کر دی جائیں۔وزیر اعظم شہباز شریف نے حال ہی میں کہا کہ آج ہماری حکومت ہے جو اگلے ماہ اپنی مدت مکمل کر لے گی اور مدت مکمل ہونے سے پہلے ہم انشااللہ جائیں گے اور نئی نگراں حکومت آئے گی۔اس اعلان کے بعد بھی ابہام ختم نہیں ہوئے بلکہ مزید سوالات نے جنم لیا ہے جیسے کہ اسمبلی تحلیل پہلے ہو یا بعد اس سے کیا فرق پڑے گا؟
پاکستان کے دو صوبوں پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں کافی عرصہ پہلے تحلیل ہو گئیں تھیں لیکن ان دو صوبوں میں تو ابھی تک الیکشن نہیں ہو سکے اور نگران سیٹ اپ قائم ہے اگر وفاق میں بھی الیکشن وقت پر نہ ہو سکے تو اس تناظر میں آئین کیا رہنمائی کرتا ہے؟ اگر اسمبلیاں آئین کی بتائی گئی مدت پوری کر رہی ہیں تو اس دن کے بعد 60 دن کے اندر اندر الیکشن ہو جانے چاہیں اور اگر اسمبلی کو قبل از وقت تحلیل کر دیا جاتا ہے تو 90 دن کے اندر الیکشن ہوں گے، الیکشن کے قانون میں حالیہ ترامیم کے بعد انتخابات کی تاریخ کا اعلان الیکشن کمیشن کرے گا۔اس سے پہلے صدر پاکستان الیکشن کی تاریخ کا اعلان کرتے تھے اور الیکشن کمیشن اس تاریخ کے مطابق انتخابی شیڈول بتاتا تھا۔
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے 8 اگست کو قومی اسمبلی تحلیل کرنے پر اتفاق کرلیا ہے۔ پیپلز پارٹی نے8 اگست کو اسمبلی تحلیل کرنیکی تجویز دی تھی، حکومت کو قانونی ماہرین نے بھی 8 اگست کی تجویز دی ہے، جبکہ قومی اسمبلی توڑنے کے لیے 9 اور 10 اگست کی تاریخ پر بھی غور کیا گیا تھا۔قانونی ماہرین کے مطابق سمری پر صدر منظوری نہ دے تو اسمبلی 48 گھنٹے بعد تحلیل ہو جائے گی۔آرٹیکل 112 کے ذریعے اگر صدر وزیراعظم کی سمری پر دستخط نہیں کرتے تو 48 گھنٹے کے اندر اسمبلی خود بخود تحلیل ہو جائیگی ، جس کے بعد وزیراعظم نگران حکومت کے لیے اپوزیشن لیڈر کو خط لکھے گا اور دونوں طرف سے نگران وزیراعظم کے لیے دو دو نام بھیجے جائیں گے۔
تین دن کے اندر نگران وزیراعظم پر اتفاق نہ ہوا تو معاملہ پارلیمانی کمیٹی کے پاس جائیگا، جس میں دونوں کی مساوی نمائندگی ہوگی۔ پارلیمانی کمیٹی کے پاس بھی تین دن کی مہلت ہوگی اور 3 دن میں اگر پارلیمانی کمیٹی نے نگران وزیراعظم کے نام پر اتفاق نہ کیا تو حتمی فیصلے کے لیے معاملہ چیف الیکشن کمشنر کو جائیگا، چیف الیکشن کمشنر دو دن کے اندر کیئر ٹیکرز کا فیصلہ کرنیکا پابند ہوگا، الیکشن کے انعقاد میں سب سے اہم مرحلہ نگران حکومت کے قیام کا ہے ، موجودہ حکومت نے نگران سیٹ اپ کے لیے مختلف ناموں پر غور شروع کر دیا ہے ، نگران وزیراعظم کے لیے کسی معاشی ماہر کولائے جانے کا امکان ہے جوکہ تین ماہ کے دران ملک کی معیشت کو سنبھالا دے اور معاشی معاملات احسن طریقے سے آگے بڑھتے رہیں ۔حکومتی جماعتوں کی جانب سے ابھی تک اس حوالے سے کوئی نام سامنے نہیں آیا ہے ، پاکستانی میڈیا میں نگران وزیراعظم کے لیے مختلف نام زیر بحث ہیں جن میں معروف صحافی محسن بیگ(امریکہ میں منشیات سمگلنگ الزام میں سزا یافتہ ) ، نجی چینل کے مالک میاں عامر محمود اور دیگر نام شامل ہیں لیکن ابھی تک سرکاری سطح پر کوئی نام سامنے نہیں آ سکا ہے ۔موجودہ الیکشن کے انعقاد میں نگران حکومت کا کردار کلیدی ہوگا کہ کس طرح پلیئنگ لیول فیلڈ کو بحال کیا جاتا ہے اور تمام جماعتوں کو الیکشن لڑنے کا موقع فراہم کیا جاتا ہے ۔
٭٭٭