اشرافیہ اور بدمعاشیہ کون!!!

0
73
شبیر گُل

اللہ رب العزت نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ۔ اس کے لئے زمین و آسمان کا فرش بچھایا ۔ ان گنت نعمتیں عطا فرمائیں۔ سمندر اور پہاڑ اس کی آسودگی کے لئے پیدا فرمائے۔ طرح طرح کے پھل اور میوہ جات، سواری کے لئے جانور اسکے تابع کئے۔نظام زندگی کو چلانے کے لئے انسانی قانون اور ضابطے وضع فرمائے۔شعور زندگی اور اخلاقی قدروں کے احیا کے لئے قرآن معظم جیسی کتاب اتاری۔ آداب زندگی کے لئے نبیوں کے امام ، سردار کائنات کا امتی بناکر ہم پر احسان عظیم کیاتاکہ ہم اپنے زندگی کو انسانی اور اخلاقی ضابطوں کے مطابق چلا سکیں۔ اللہ نے ایک نظریاتی مملکت عطا فرمائی ۔ جہاں قرآن کی تعلیم اور رسول اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی رہنمائی سے زندگی کے اصول و ضوابط کے مطابق زندگی کو ااحسن طریقہ سے گزارا جائے۔ لیکن افسوس کہ ہمارے حکمرانوں ، ہمارے لیڈروں نے ظلم کے نظام کو ہم ہر مسلط رکھا۔ کیا نواز شریف، شہباز شریف ، زرداری ، فضل الرحمن ، اسحاق ڈالر وغیرہ کا اس کیٹگری سے کوئی تعلق ھے ۔ تو دل یہ کہنے ہر مجبور ھوتا ہے کہ انکا اس مخلوق سے کوئی تعلق نہیں ۔ان حیوانوں کو انسانوں سے کوئی واسطہ نہیں۔ اللہ نے ان سے سوچنے، سمجھنے کی صلاحیتوں سے محروم کردیا ہے۔ یہ بے شعور ہیں، جہل کا نچوڑ ہیں، عقل سے محروم ہیں۔ جنہیں انسانی اور عوامی مسائل کاادراک نہیں ۔ سوچنے،سمجھنے اور محسوس کرنے کی صلاحیت سے محروم یہ لوگ فرعون ہیں۔ یہ انسان نما جانور ہیں۔ جنہوں نے زندہ انسانوں کو درگور کردیا ہے۔ اور بڑی بے شرمی اور ڈھٹائی سے اسمبلی میں اپنی تعریفوں کے پل باندھتے ہیں۔ٹی وی اور میڈیا پر آتے ہیں۔ اخلاقیات نام کی چیز سے انکا کوئی واسطہ نہیں۔ پاکستان میں غربت اور بھوک سے مجبور بچیاں ، اپنا جسم بیچنے ہر مجبور ہئں۔ ایسے حکمرانوں اور سیاسی پنڈتوں کو اشرف المخلوقات کہنا انسانیت کی توہین ہے۔ یہ درندوں سے گئے گزرے ہیں ۔اللہ رب العزت نے اشرف المخلوقات کی صفات بیان کی ہئں۔ انسان کو اللہ تعالی نے جو شعور عطا کیا ہے وہ جانوروں اور درندوں کو نہیں۔یہ فرق ہے جو انسان کو دوسری مخلوقات سے ممتاز کرتا ہے۔ لیکن اگر یہی انسان دوسرے انسانوں کو نقصان پہنچاتا ہے۔ حیونیت اختیار کرتا ہے۔ درندگی کی راہ پر چلتا ہے۔ بربرئیت کے طریقے اپناتا ہے۔ سفاکیت اور ظلم کرتا ہے۔ تو اسکے شعور کی نس اللہ بند کر دیتا ہے۔ جس سے اسکے اشرف ہونے کی صلاحیت چھن جاتی ہے۔ اشرف المخلوقات ہونے کا تعلق انسانی رویوں، انسانی سوچ، شعوروہدایت پرہ ہے۔ پاکستان میں شعور سے عاری لوگوں کاراج ہے۔مملکت خداداد اشرافیہ اور بدمعاشیہ کے درمیان گیند بن چکا ہے۔جسے اپنی مرضی سے پیٹا جا رہا ہے۔ جب عزتیں بک رہی ہوں ۔ مہنگائی سے مجبور لوگ خودکشیاں کر رہے ہوں ۔ تو کھرب پتی وزیراعظم اس سارے عذاب کی جڑ اشرافیہ کو دے رہے ہوں تو عام عوام تذبذب کا شکار ہوتے ہیں کہ اشرافیہ کون ہیں ؟ اور بدمعاشیہ کون؟۔ کیا جنہوں نے گزشتہ تیس سال لوٹ مار کی ہے وہ اشرافیہ ہیں یا عوام ؟
لیکن میری سمجھ میں یہ آیا کہ حکمران اور انکے چیلے نہ اشرافیہ ہیں اور نہ بدمعاشیہ ۔ دراصل عوام بدمعاشیہ ہئں اور کوئی خلائی مخلوق ہے جو اشرافیہ ہے۔ جس نے ستر سال ملک و قوم کو بے آبرو کیا ہے۔ بے آسرا اور بے سہارا چھوڑا ہے۔ ہم ہیں کہ ستر سال یہی نہیں سمجھ سکے کہ اشرافیہ کون اور بدمعاشیہ کون؟ قومی اسمبلی میں بڑے بڑے ڈاکو ، کھرب پتی چور اور لٹیرے کہتے ہیں کہ ملک کو اشرافیہ نے تباہ کیا ہے۔ مجھے وہ اشرافیہ نظر نہیں آرہی جنہوں نے سرے محل اور ایون فیلڈ جیسے محلات کھربوں کے اثاثے قوم کے منہ پر تھپڑ ہے۔
اللہ رب العزت نے قرآن پاک میں جو فرمایا ہے کہ یہ بہرے ہیں، گونگے ہیں، اندھے ہیں ، انہیں کچھ سجھائی نہیں دیتا۔وہ ہمارے بارے ہی فرمایا ہے۔پاکستان میں پہلے بچے بکتے تھے۔اب عزتیں بک رہی ہیں ۔کسی دوست نے بتایا کہ مہنگائی اس قدر بڑھ گئی ہے۔ کہ ہر پانچویں گھر میں بھوک سے مجبور لوگ عزتیں بیچ رہے ہیں۔ خود کشیاں بڑھ رہی ہیں ۔حکمران اشرافیہ ڈھٹائی سے مہنگائی کا ملبہ گزشتہ حکمرانوں پر ڈال رہا ہے۔ تیس سال کی بدکاریوں کا گند اشرافیہ نے بدمعاشیہ (یعنی عوام) پر ڈال دیا ہے۔
قومی اسمبلی میں بے حس اشرافیہ مہنگائی اور ٹیکس کا بم بدمعاشیہ یعنی عوام پر ڈال رہی ہے۔
پی ٹی آئی کے بڑے بڑے جگادری ریت کی دیوار ثابت ہوئے۔پاکستانی سیاست کا یہ المیہ رہا ہے کہ پارٹیاں بدلنے۔ قسمیں توڑنے کو کونسی اخللاقیات کو درجہ حاصل ہے۔ یہ سیاسی گماشتے بازار حسن کی نائیکہ سے بھی گیے گزرے ہیں جو پیسوں کے لئے کم ازکم ایک رات تو گاہک ساتھ گزارتی ہے۔ ہمارے (سیاسی کنجر )پارٹی میں ند سال بھی نہیں گزارتے۔ اسی کو تو جسم فروشی کہا جاتا ہے۔ یہی تو وہ لوگ ہیں جو اپنی کرپشن چھپانے ، اثاثے بچانے کے لئے اپنا پورا جسم بیچ دیتے ہیں۔
وفاداریاں مشکل وقت اور زوال میں نبھائی جاتی ہیں۔ وگرنہ خوشی کے موقع پر تو کھسرے بھی ناچنے آجاتے ہیں۔ یہ اتنے کمزور , بزدل اور نامرد لوگ ہیں کہ ان پر بھروسہ ملکی تقدیر کے ساتھ کھیلنا ہے۔ وکٹیں گرانے والوں کی اپنی وکٹیں جس تیزی سے گر رہی ہیں اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہی وہ اشرافیہ ہے جو ملک کی تباہی میں برابر کی ذمہ دار ہیں۔ مذہبی راہزن اور اسلام کے ٹھیکیدار فضل الرحمن کے بیٹے کی کرپشن کے قصے زبان زدعام ہیں۔
باقی سب بدمعاشوں کو تو عوام آزما چکے ہیں، الیکشن کوتین ماہ باقی رہ گیے ہیں قوم چوروں،دین دشمنوں،وطن دشمنوں،دہشت گردوں،بھتہ خوروں،قاتلوں،قبضہ مافیا،اور مادر پدر آزاد،جاہلوں کومنتخب کرے گی اور پھر پانچ سال لوٹ مار،مہنگائی،بدامنی اورظلم پر ان کا اٹ سیاپا لگائے گی۔
قارئین محترم !۔
موجودہ ملکی حالات پر اوورسیز پاکستانی پریشان ہیں۔دیار غیر میں اوورسیز پاکستانی روزی روٹی کمانے کے لئے، اپنے بھوک مٹانے کے لئے، اپنی بہنوں، بیٹیوں کو بیاہنے کے لئے، اپنے ماں باپ کی خدمت کرنے اور زندگی کو آسودہ بنانے کے لئے تشریف لاتے ہیں۔ان میں سے اکثریت محنت مزدوری سے اپنا گھر چلاتے ہیں۔اور کچھ اپنا خاص مقام بناتے ہیں۔ھماری کچھ بہنیں کمئونٹی میں ایک مقام رکھتی ہیں۔ جنہوں نے اپنی محنت سے ممتاز حیثیت حاصل کی ہے۔
لیکن اسی کمیونٹی میں کچھ افراد لوگوں کے خلاف ، خصوصا عورتوں حراساں کرتے ہیں۔ بلیک میل کرتے ہیں ، انکے خلاف لکھتے ہیں جو انتہائی گھٹیا اور غیر مناسب ہے۔ کمیونٹی کے بااثر افراد ایسے ناپاک لوگوں کو ٹالریٹ کرتے ہیں۔ جو کمیونٹی کے مستقبل اور ہماری بیٹیوں کی عزت وقار کے لئے اچھا نہیں ہے۔ آج سے چند سال پہلے مرحوم بھٹی ایسی ہی غلیظ تحریریں لکھا کرتے تھے۔ اس وقت میں نے کئی معززین کو قہقہے لگاتے اور اس دیوس کو سپورٹ کرتے دیکھا۔آج تک لوگ اسے گالیوں سے یاد کرتے ہیں۔ ہمیں اپنا جائزہ لینا چاہئے کہ ہم کس سمت چل نکلے ہیں۔ کچھ لوگوں کی تماشبینی کے علاوہ انہیں ناپسندیدہ سمجھا جاتا ہے۔
یہ لمحہ فکریہ ہے کہ ہم بنگلہ اور یمنی کمئونٹی سے بہت پہلے امریکہ میں موجود ہیں لیکن کمیونٹی میں جس تیزی سے خلا کو پر کرکے ایک خاص مقام حاصل کیا ہے۔ہم نہیں کرسکے۔ ہم لیگ پلنگ، اور منفی سوچ کی وجہ سے پیچھے رہ گئے ہیں۔
قارئین ! آئیے اصل موضوع کی طرف ۔کہ آج پاکستان کی تباہی میں جتنا کردار فوجی اسٹیبلشمنٹ کا ہی ۔ اس سے زیادہ جوڈیشری کا ہے ۔عدالتیں ،مجرموں ، لٹیروں اور بدعنوانیوں کی پناہ گاہیں۔ان عہدوں پر بہادر اور بے خوف ججز کا ہونا ضروری ہے۔ جب تک غیر مسلم ججز تھے ۔ فیصلے حق اور سچ کی بنیاد پر ھوتے تھے۔ اور اب مسلمان ججز ہیں جنہوں نے ملکی وقار، سالمیت اور بقا کا سودا ، جرنیلوں اور بدمعاش سیاسی اشرافیہ سے کرلیا ہے۔ جس دن عدلیہ کا کردار جرآت اور ایمانداری ھوگا۔ نہ کوئی طالع آزما اور نہ ہی کوئء ڈکٹیٹر جمہوریت سے کھلواڑ کرئے گا۔اور نہ کرپشن کی جرآت ۔
پاکستان کی معیشت ،اقتصادیات،زراعت کا درآمدات ایماندار قیادت، ایماندار جوڈیشری
، ایماندار سیاسی ماحول پر ہے۔ ملکی حالات تب تک ٹھیک نہیں ہو سکتے جب تک کرپٹ مجرموں کو سخت سزائیں نہ دی جائیں۔ انکی گردنیں نہ کاٹی جائیں۔لوٹی دولت واپس نہ لی جائے۔ جرائم کی سزا دی جائے۔ اسکے لئے جماعت اسلامی کو اقتدار میں لانا ہونا ہوگا۔ جو ایماندار اور صالحین کی جماعت ہے۔76 سال پاکستان تجربہ گاہ رہا۔ نہ یہاںجمہوریت پنپ سکی اور نہ ڈکٹیڑ کامیابی پاسکے۔ یہ ملکی اسلامی نظریہ کی بنیاد ہر وجود میں آیا۔ اسکا اسلامی آئین گواہی ہے۔ لہٰذا اس میں نظریاتی، اسلامی جماعت کا اقتدار میں ہونا ضروری ہے۔جس کی بنیاد اخلاقیات ہو۔ جس کا خود احتسابی کا نظام ہو ۔جس میں الیکشن ہوتے ہوں۔جس کو چلانے والے باکردار ، اور با حیا انسان ہوں ۔ وہ جماعت صرف اور صرف جماعت اسلامی ہے۔ جو اسلامی اقدار ، اخلاقی اقدار، شرم و حیا کی آمین ہے۔ یہ پاکستان کی بقا کے لئے ضروری ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here