سپریم کورٹ آف پاکستان میں ججوں کی تعیناتی روز بروز متنازعہ بنتی جارہی ہے کہ جس میں آج سپریم کورٹ میں پنجاب اور سندھ کے ججوں کی بھاری اکثریت پائی جارہی ہے جس میں پختون خواہ اور بلوچستان کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے جبکہ سپریم کورٹ بھی پاکستانی فیڈریشن کی طرح ایک آئینی ادارہ جس میں ججوں کی تعداد بھی سینیٹ کی طرح برابر ہونا چاہئے تاکہ تمام صوبوں کی سپریم کورٹ میں مساوی نمائندگی ہو، لہٰذا ہر صوبے سے چار چار جج صاحبان نامزد ہونا چاہئے جن میں ایک جج اسلام آباد ہائی کورٹ سے لیا جائے تاہم حال ہی میں سپریم کورٹ میں خالی نشستوں پر دوبارہ ججوں کی تعیناتی پر حمایت اور مخالفت کا چرچا رہا کہ سپریم کورٹ میں جب دو صوبوں پنجاب اور سندھ سے جو تیز ترین ججوں کی نامزد کیا گیا تو جوڈیشل کمیشن کے ممبران میں شدید اختلاف پایا گیا کہ جج صاحبان ہائی کورٹوں کے جونئیر ترین جج صاحبان ہیں جن کی جگہ صوبوں کے ہائی کورٹوں کے چیف جسٹوں کو نامزد کیا جائے جو اپنی قابلیت کی بنا پہلے جج بنے پھر انہیں سنیارٹی کی بنا پر ہائی کورٹ کا چیف جسٹس بنایا گیا چنانچہ جونیئر ترین ججوں کی سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کی من پسندیدگی اور اسٹیبلشمنٹ کے حمایتی کی وجہ سے جوڈیشل کمیشن کے ممبران میں اختلاف پایا گیا جس میں اس دفعہ موجودہ حکومت کے وزیر قانون اور اٹارنی جنرل نے کمیشن کے جج کی حیثیت سے جونیئر ترین ججوں کی تعیناتی کی حمایت میں ووٹ دیا جبکہ کمیشن کے ممبر جسٹس فائز عیٰسی، جسٹس منصور علی خان سابقہ جسٹس سرمد جلال عثمانی نے بار کونسل کے ممبر نے مخالفت میں ووٹ ڈالے جس میں تین جج صاحبان نامزد ہوئے ایک رد ہوگیا۔ جو اب آٹھ ممبران پارلیمنٹرین چار سینٹروں اور چار ایچ این ایز کے پاس صرف دستخط کے لیے بھیجا جائے گا جس کے بعد وہ سپریم کورٹ کے جج قرار دیئے جائیں گے ،ججوں کی تعیناتی پر سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ موجودہ ججوں کی پرموش اور تعیناتی صحیح ہے یا غلط جس کا جواب مثبت اور نفی میں ملتا ہے کیونکہ دنیا بھر میں مہذب اور جمہوری ریاستوں میں اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کی نامزدگی پارلیمنٹ کرتی ہے۔ جس طرح امریکہ میں کانگریس کے ذریعے ججوں کو نامزد کیا جاتا ہے۔ جن سے ان سے ہر قسم کے سوالات پوچھے جاتے ہیں جن کو کانگریس کی آئینی اور قانونی کمیٹی کے سامنے گزرنا پڑتا ہے، چاہے دونوں سیاسی پارٹیوں ڈیموکریٹک اور ریپبلکن کے نامزد امیدوار کیوں نہ ہوں، پاکستان میں جوڈیشل کمیشن نامزد کرتا ہے جس کے ممبران کی تعداد ہوتی ہے جس میں چیف جسٹس سمیت پانچ سینئر ترین جج صاحبان ایک سابقہ جج ایک وزیر قانون ایک اٹارنی جنرل اور ایک بار کونسل کا ممبر ہوتا ہے جو پہلے کسی جج کی تعیناتی میں ووٹنگ کرتے ہیں جس کے بعد نامزدگی پر مہر لگانے کے لیے پارلیمنٹ کو رجوع کیا جاتا ہے جس پرآٹھ پارلیمنٹرین دستخط کردیئے ہیں تو وہ جج نامزد ہوجاتا ہے سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر ہائی کورٹ میں سینئر ترین جج کو ہائی کورٹ کا چیف جسٹس بنایا جاتا ہے سپریم کورٹ میں سینیئر ترین جج کی چیف جسٹس بنایا جاتا ہے تو پھر سپریم کورٹ میں سینئر ترین ہائی کورٹوں کے ججوں کو کیوں نہیں نامزد کیا جاتا ہے۔ جو اب تک متنازعہ ترین مسئلہ بن چکا ہے جس کا حل مشکل ہوچکا ہے جج اب عدالتی نہیں سیاسی معاملہ بنا دیا گیا ہے۔ جس سے وکلاء برداری میں شدید ردعمل پایا جاتا ہے جو اکثر وبیشتر احتجاج کرتے نظر آتے ہیں۔ بہرحال پاکستان میں نظام عدل اور عدالتیں دنیا کی بدنام زمانے عدلیہ بن چکی ہیں جن کا نمبر 128ویں ہوچکا ہے جس کے لیے پاکستانی عدالتوں کے مقدمات کے فیصلوں کو بطور ریفرنس پیش کرنا مشکل ہوچکا ہے۔ یہاں لاکھوں کی تعداد میں مقدمات زیرسماعت اور التوا پڑے ہوئے ہیں۔ کیونکہ عدالتوں میں22کروڑ آبادی کے لحاظ سے ججوں کی تعداد بہت کم ہے جو شاید ساڑھے تین ہزار کے لگ بھگ ہے جبکہ آج پاکستان میں ادنی عدالتوں میں ججوں کی تعداد کم از کم دس ہزار سے پندرہ ہزار تک ہونا چاہئے تاکہ پاکستانی عوام کو کم سے کم وقت میں انصاف مل پائے جیسا کہ امریکہ میں سپریم کورٹ کے ججوں کی تعداد ہے مگر سرکٹ کورٹوں اور فیڈرل کورٹ میں جن کے ججوں کی تعداد870ہے جبکہ ریاستوں کی عدالتوں کی تعداد اور ججوں کی تعداد ہزاروں میں پائی جاتی ہے جس کی وجہ سے امریکہ نظام عدلیہ کامیاب چل رہا ہے۔
٭٭٭٭٭