وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی احسن اقبال نے آئی ایم ایف کی شرائط پر عملدرآمد ناممکن قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ سیلاب کی وجہ سے درپیش مالیاتی مسائل کے باعث عالمی مالیاتی ادارہ اپنی شرائط پر نظر ثانی کرے۔انہوں نے کہا کہ سیلاب سے تین کروڑ تیس لاکھ افراد متاثر ہوئے ہیں ،ان افراد کی بحالی اور ترقیاتی ڈھانچے کی تعمیر نو کے لئے پاکستان کو 16.2 ارب ڈالر کی ضرورت ہے ۔ دو ہفتے قبل وزارت خزانہ کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا کہ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف)، ورلڈ بینک اور مختلف مالیاتی اداروں کے اعلی حکام سے اہم ملاقاتیں کیں۔وزیر خزانہ واشنگٹن ڈی سی میں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے تحت منعقد ہونے والے سالانہ اجلاسوں میں پاکستان کے وفد کی قیادت کر رہے تھے۔ اسحاق ڈار نے آئی ایم ایف حکام کو پاکستان میں غیر معمولی سیلاب سے ہونے والے نقصانات سے آگاہ کیا۔ انہوں نے معیشت کو مستحکم کرنے اور پائیدار و لچکدار بحالی کے لیے حکومت پاکستان کے وژن سے آگاہ کیا۔ ایک الگ ملاقات میں وزیر خزانہ نے سیلاب سے ہونے والی تباہی کے دوران پاکستان کا دورہ کرنے پر ورلڈ بینک کے جنوبی ایشیا ریجن (SAR) کے نائب صدر مارٹن رائسر کا شکریہ ادا کیا۔وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ اس دورے سے تباہ کن سیلاب سے ہونے والے زبردست نقصانات کا اندازہ لگانے میں مدد ملی۔اس دورے کا مقصد تباہ حال پاکستان کے لئے مالیاتی رعایت حاصل کرنا تھا اس لئے وزیر خزانہ ان عالمی اداروں کے سربراہان سے بھی ملے جو پاکستان کے ساتھ کام کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ اسلامی ترقیاتی بینک (IDB) کے صدر ڈاکٹر محمد سلیمان الجاسر سے ملاقات کے دوران وزیر خزانہ نے اس بات کو سراہا کہ پاکستان اور IDB کئی دہائیوں سے قابل اعتماد شراکت دار رہے ہیں۔وزیر خزانہ نے ڈوئچے بینک اور جے پی مورگن کے سربراہوں کے ساتھ بھی ملاقاتیں کیں اور معیشت کو مستحکم کرنے کے ساتھ ساتھ سیلاب کے متاثرین کو امداد فراہم کرنے کے لیے حکومتی منصوبوں سے آگاہ کیا۔وزیر خزانہ نے ایسی ہر ملاقات میں یقین دلایا کہ موجودہ حکومت آئی ایم ایف کے پروگرام کو مکمل کرنے کے لیے پرعزم ہے۔یہ ادارے آئی ایم ایف کی پالیسیوں میں کردار ادا کرتے ہیں۔ وزیر خزانہ کو پاکستان کے مسائل ان کے سامنے رکھنے کی ضرورت تھی تاکہ مالیاتی دنیا میں پاکستان کی مشکلات پر ایک ہمدردانہ موقف حاصل کیا جا سکتا لیکن ضرورت سے زیادہ پر اعتمادی کا نتیجہ یہ نکلا کہ آئی ایم ایف پہلے تو قرض کی نئی قسط جاری کرنے پر آمادہ نہ تھا پھر قسط جاری کی تو ساتھ شرائط سخت کر دیں ۔ امریکہ اور آئی ایم ایف سے کسی حد تک مایوس ہونے کے بعد وزیر خزانہ نے دوست ملک چین کا رخ کیا ۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ وہ چینی حکومت قرضوں کو ری شیڈول کرنے کی کوشش کرتی ہے اور انہوں نے تباہ کن بارشوں اور سیلاب سے تباہ حال معیشت کے باوجود پاکستان کی قرضوں کی ادائیگی کی صلاحیت پر اعتماد کا اظہار کیا۔ کریڈٹ ریٹنگ کمپنی موڈیز نے حال ہی میں پاکستان کی قرض ادا کرنے کی صلاحیت پر شک ظاہر کرتے ہوئے پاکستان کی درجہ بندی کو کم کر دیا ہے۔ تاہموزیر خزانہ کا کہنا ہے کہ پاکستان اپنی مالی ذمہ داریاں پوری کر سکتا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ “میں بہت پراعتماد ہوں۔ ہم وسائل کو متحرک کر رہے ہیں؛ ہمارے پاس وعدے ہیں۔” انہوں نے کہاکہ یہی وجہ تھی کہ وہ پاکستان واپس آئے۔ پاکستان کا بیرونی قرضہ 130 بلین ڈالر سے زیادہ ہو چکاہے یہ قرض اپنے حجم کے اعتبار سے جی ڈی پی کا 75 فیصد کے قریب ہے۔ موجودہ زر مبادلہ ذخائر چند ہفتوں کے لیے درآمدات پر انحصار کرنے والی معیشت کو سہارا دینے کے لیے بمشکل کافی ہیں۔ تاہم روپیہ اس سال امریکی ڈالر کے مقابلے میں اپنی قدر کا تقریبا 30 فیصد کھونے کے بعد تھوڑا سا سنبھلا ہے۔ رواں سال اگست میں، آئی ایم ایف نے پاکستان کو قرض کی ادائیگیوں میں نادہندہ ہونے سے بچانیکے لیے سخت مذاکرات کے بعد انتہائی ضروری 1.17 بلین ڈالر کی فراہمی کی منظوری دی۔ چین، سعودی عرب، قطر اور متحدہ عرب امارات جیسے روایتی اتحادیوں کی اضافی حمایت نے بھی بحران کو روکنے میں مدد کی لیکن موسم گرما میں مون سون کی غیر معمولی بارشوں سے اربوں ڈالر کا نقصان ہوا، 40 لاکھ ایکڑ فصلیں تباہ ہوئیں، تقریبا 80 لاکھ لوگ بے گھر ہو گئے۔ اور ملک کی 220 ملین آبادی کا تقریبا 15% متاثر ہوا۔اس نقصان نے مالیتی نظم اور قرض کی ادائیگی کی صلاحیت کو متاثر کیا ہے۔ان حالات میں بد انتظامی اور اداروں کی نااہلی نے عام آدمی پر بوجھ دوہرا کر دیا۔ تازہ رپورٹس بتاتی ہیں کہ مہنگائی کی شرح میں 4.13فیصد اضافہ ہو چکا ہے ۔یوں دکھائی دیتا ہے کہ حکومت ایک ضد پکڑے ہوئے ہے کہ وہ سب کچھ ٹھیک کر سکتی ہے ورنہ سچائی یہی ہے کہ نا عالمی ادارے اس کی کارکردگی سے مطمئین ہیں نہ عام آدمی خوش ہے۔جناب احسن اقبال جانتے ہیں کہ آئی ایم ایف سے شرائط پر نظر ثانی کا مطالبہ تسلیم نہیں کرایا جا سکا ۔عالمی ادارے پاکستان میں تازہ مینڈیٹ والی حکومت کے ساتھ بات چیت میں دلچسپی رکھتے ہیں ،سیاسی عدم استحکام کی فضا میں بھلا کون حکومت کی بات سنے گا۔
٭٭٭