بنگلہ دیش کے پروفیسر محمد یونس کی سربراہی میں قائم ہونے والی عارضی حکومت کے خواب و خیال میں یہ گمان نہ تھا کہ وہاں کی ہندو آبادی جو بنگلہ دیش کی کُل آبادی کا آٹھ فیصد ہے اُن کیلئے درد سر بن جا ئیگی لیکن شومئی قسمت ایسا نہ ہوا ، روزانہ کی بنیاد پر بنگلہ دیش میں ہندوؤں کا احتجاجی جلوس وہاں کی عارضی حکومت کیلئے ایک وبال جان بن گیا ہے، یکم نومبر 2024 ء کو تیس ہزار ہندوؤں نے چاٹگام کے شہر میں ایک جلوس نکالا جس میں بنگلہ دیش کی حکومت سے یہ مطالبہ کیا گیا کہ وہ اُن کی جان و مال کی حفاظت کی ضمانت دے ، اُن پر بنگلہ دیش کے طول و عرض میں کئے گئے حملے جن کی تعداد تین ہزار بتائی گئیں ہیں اُن سے اُنہیں نجات دلائے اور اُن پر لگائے گئے بغاوت کے الزامات کو خارج از عدالت کرے، اُنکے مطالبات میں یہ بھی شامل تھا کہ بنگلہ دیش کی تمام تعلیم گاہوں میں ہندو طلبا و طالبات کی عبادت کیلئے ایک کمرہ مختص کیا جائے اور سنسکرت کو عربی کے مقابلے کا درجہ دیا جائے ،ہندوؤں کی ناراضگی کی پہلی وجہ تو یہ ہے بنگلہ دیش کے طلبا کی انتھک جدوجہد اور ایک تاریخی قربانی کی وجہ کر وہاں کی ایک غیر جمہوری ظالم و بدعنوان حکومت کا تختہ اُلٹ گیا اور حکومت کی سربراہ شیخ حسینہ اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ بھارت فرار ہوگئیں،اِن ہنگاموں کی دوسری وجہ یہ ہے کہ اِس کے پس پردہ بھارتی حکومت کی ریشہ دوانیاں کار فرما ہیں،تازہ ترین صورتحال میں بھارت و بنگلہ دیش کے تعلقات میں ایسی شدید دڑاریں پڑگئی ہیں جسکا مندمل ہونا مشکل ہی نظر آتا ہے، اِس کشاکش فضا کا آغاز اُس وقت ہوا جب پولیس نے ہندوؤں کی ایک تنظیم انٹرنیشنل سوسائٹی برائے کرشنا اور متعدد ہندو تنظیموں کے ایک رہنما چِن موائے کرشنا داس کو ڈھاکا ایئر پورٹ سے گرفتار کرلیا، اُس پر الزام یہ تھا کہ وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ چاٹگام کے ایک مظاہرے میں بنگلہ دیش کے جھنڈے کی توہین کی تھی، اُس کے دوسرے ساتھی پہلے ہی سے اِسی الزام میں گرفتار کئے جاچکے تھے لیکن اِسی کاروائی کے دوران دہشت ناک صورتحال اُس وقت پیدا ہوگئی جب چاٹگام کی ایک عدالت میں چِن موائے کرشنا داس کے مقدمہ کی سماعت ہورہی تھی اور ہزاروں کی تعداد میں اُس کے حمایتی وہاں جمع ہوگئے تھے، جب جج نے کرشنا داس کی ضمانت کی درخواست کو مسترد کردی اور اُسے دوبارہ جیل بھیجنے کا حکم دیا تو اُس کے حمایتی سخت ناراض ہوگئے، اِسی دھکم دھکا میں کرشنا داس کے حمایتی نے پراسیکیوٹر سیف الاسلام کو عدالت کے کمرے سے گھسیٹتے ہوئے باہر لے گئے اور اُسے بے دردی سے قتل کردیاجیسا کہ بھارتی میڈیا نے اِس خونریزی کی اطلاعات فراہم کی ہیں، اُس کی رو سے پراسیکیوٹر سیف الاسلام کے قتل کے بعد اُس کا ردعمل چاٹگام شہر کے قرب و جوار میں پھیل گیا اور ہندوؤں کے تقریبا”تین سو مکانات جلا کر خاکستر کر دیئے گئے ، کرشنا داس کے وکیل کے گھر پر بھی حملے کئے گئے جو انتہائی زخمی حالت میں ہسپتال کے آئی سی یو میں داخل ہے، اُسکے علاوہ دوسرے متعدد ہندو بھی مذہبی فساد کا نشانہ بنے، اِس فساد کی خبر چند لمحے ہی میں دنیا کے طول و عرض میں پھیل گئی، دہلی ، کلکتہ اور اگرتلہ میں بنگلہ دیش کی حکومت کے خلاف شدید مظاہرے کئے گئے ، اگرتلہ میں ہندو شر پسندوں نے سفارت خانہ کے اندر داخل ہوکر ہلڑ بازی اور توڑ پھوڑ کرنے سے بھی باز نہ آئے، انگلینڈ کی پارلیمنٹ کے رہنماؤں نے بھی چاٹگام کے فساد پر اپنے غم و غصے کا اظہار اور بنگلہ دیش کی حکومت سے اقلیت کی جان و مال کی حفاظت کرنے کا مطالبہ کیا، بنگلہ دیش کی معزول وزیراعظم شیخ حسینہ جو نیویارک میں جشن آزادی کی ،تقریب میں شرکت کیلئے آئی ہوئی تھیں ایک نیا شوشہ چھوڑا کہ نوبل انعام یافتہ پروفیسر محمد یونس بنگلہ دیش میں ہندوؤں کی نسل کشی کر رہے ہیںاور دنیا کو وہاں کے حالات میں مداخلت کرنی چاہیے.آسٹریلیا، فرانس ِ، امریکا میں بھی بنگلہ دیش کی حکومت کے خلاف مظاہرے کئے گئے، مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتا بنرجی جو بھارت کی ایک شہرہ آفاق سیاستدان ہیں نے مطالبہ کیا کہ بنگلہ دیش میں امن و امان قائم رکھنے کیلئے یونائیٹڈ نیشن کی فوج بھیجی جائے، ممتا بنرجی کے بیان پر بنگلہ دیش میں سخت ردعمل دیکھنے میں آیا، طلبا و طالبات سڑک پر نکل آئے اور مذکورہ رہنما اور بھارت کے خلاف نعرے لگانے لگے،سنگین صورتحال کو دیکھ کر بھارتی حکومت اگرتلہ میں بنگلہ دیشی سفارت خانہ پر حملے پر معذرت کا اظہار کیا اور ساتھ ساتھ ممتا بنرجی کو یہ تنبیہ بھی دی کہ کیونکہ وہ ایک صوبے کی وزیراعلیٰ اسلئے مرکزی حکومت کی نمائندگی کرنے اور بے سر پاؤں کے بیانات دینے سے گریز کریں، ہندوؤں کا سرکش رہنما کرشنا داس کو دوسری سماعت میں بھی ضمانت نہیں مل سکی، اور اُس کا مقدمہ بغیر کسی سماعت کے ایک ماہ کیلئے ملتوی ہوگیا، وجہ اِس کی یہ تھی کہ کرشنا داس کو کو ئی وکیل نہ مل سکا جس کسی وکیل سے اُس نے رابطہ کیا اُس نے معذرت کرلی،پراسیکیوٹر کے قتل اور فسادات سے چاٹگام کی فضا یونہی مکدر ہے اور کوئی وکیل کرشنا داس کی پیروی کرکے اپنے پیر پر کلہاڑی نہیں مارسکتا،اِس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ اِن حالات میں بنگلہ دیش کے عوام اور حکومت انتہائی گہرائی و گیرائی سے مشرق وسطیٰ کی اسلامی مملکت کی جانب دیکھ رہی ہے، اُس کی بقا اور اُسکی خودمختاری کیلئے بلین آف ڈالرز کی امداد کا ملنا ضروری ہے، ورنہ بھارت ماتا اُسے نگلنے میں کوئی دقیقہ فردگذاشت نہیں کرے گی، عوامی لیگ کی نااہل حکومت نے گذشتہ 53 سال میں پہلے ہی سے بنگلہ دیش کا معاشی، سیاسی و سماجی طور پر بیڑا غرق کرکے رکھ دیا ہے۔