ٹرمپ انتظامیہ نے پورے امریکہ کی ایمگرنٹ کمیونٹی میں خوف وہراس پیدا کردیا ھے۔ آئے روزتھوک کے حساب سے ایگزیکٹو آرڈرز پر دستخط کئے جارہے ہیں۔ ایسے محسوس ھوتا ھے کسی مخبوط الحواس شخص کے ہاتھ میں اقتدار آچکاھے۔ ماضی میں بش جیسا شخص افغانستان اور عراق کی اینٹ سے اینٹ بجا چکے ہیں ۔انکی بھڑکیں پانامہ کینال، گرین لینڈ پر دکھانا کچھ اور کرنا مختلف بھی ھوسکتی ہیں ۔اپنے بغل بچہ اسرائیل کے ذریعے خلیج کو ایکبار پھر جنگ میں جھونکا جارہا ھے۔ان لوگوں کے خدائی لہجے اور فرعونی اسٹائل نہ اپنایا جائے۔ فرعونوں سے قبرستان بھرے پڑییں۔
ریپبلکن کے نان سیریس لوگوں کی ٹیم نے ہر طرف دھبڑدھوس مچادی ھے۔ انکے اقدامات سے بزنس کمیونٹی میں سراسیمگی پھیل گئی ھے۔ سکولوں میں ایمگرنٹ کمئونٹی کے بچوں میں خوف کی فضا ھے۔ چھاپوں اور پکڑ دھکڑ کے خوف سے ہسپانک کمیونٹی کے لوگ گھروں میں دبک گئے ہیں۔ جس کی وجہ سے کارنر سٹورز، میکسکن ریسٹورنٹس۔چائنیز فوڈ، پیزا سٹورز،اور گراسری سٹورز کے بزنس میں کمی واقع ھوئی ھے۔ امریکہ میں ایسے ہی محسوس ھوتا ھے جیسے کسی مولا جٹ کی حکومت ھے۔ہر ایک کو دھمکیاں ، ہر ایک پر ٹیرف۔ ٹرمپ کو ووٹ دینے والے بھی پریشان ہیں۔ کسان ،امپورٹرز اور ایکسپورٹرز بھی پریشان ھیں۔ ٹرمپ نے ہر طرف جنگ کے الارم بجا دئیے ہیں ۔ ٹیرف کے نام پر معاشی لڑائی شروع کردی ھے۔ کینڈا،چاہینہ،خلیج، پانامہ،میکسکو،جنوبی افریقہ،نیٹو، اقوام متحدہ کے ساتھ بھی مخاذ کھول دئیے ہیں۔ دو ملین فیڈرل ورکرز کو جبری ریٹائرمنٹ کے خلاف ۔ سوشل سیکورٹی اور بینکوں سے پرسنل ڈیٹا تک رسائی کے خلاف اٹھارہ اسٹیٹس کے اٹارنی جرنلز نے فیڈرل حکومت کے خلاف کیس دائر کر دیا ھے۔ پیسہ میں بہت طاقت ھے ۔ الیکشن میں ایلون مسک کے دو سو پچاس ملین کی ڈونیشن نے اسے ٹرمپ کا رائٹ ہینڈ بنا دیا ھے۔ ایلون مسک، کاش پٹیل ،رام سوامی وغیرہ جیسے مسخروں کو دیکھ کر اندازہ ھوتا ھے۔ بندروں کے ہاتھ میں املوک آگئے ہیں۔ قارئین !۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں ۔رزق کی تقسیم اللہ رب العزت کے اختیار میں ھے۔ یہ قدرت کا قانون ھے۔ کہ جسے چاہے، جب چاہے، جیسے چاہے ،جتنا چاہے نوازتا ھے۔ اسکے لئے عقل کا ہونا ضروری نہیں۔انتہائی غیرسنجیدہ، انسانیت سے عاری بلینرز کی حرکات دیکھ کر اندازہ ھوتا ھے کہ یہ انکا لیول نہیں تھا۔ بعنیہ اللہ رب العزت نے ھمارے حکمرانوں کو بھی ایسے ہی عقل و شعور سے نوازا ھے۔ جن کا انسانیت سے دور کا واسطہ نہیں ۔ جنہوں نے ملک خدادا کا سوا ستیاناس کردیا ھے۔ قارئین !۔ امریکہ کا نظام حکومت بلنئرز بزنس مینوں کی ٹیم کے ہاتھ اقتدار لگ چکا ھے۔ جو ملک کو معاشی تباہی کیطرف لے جارہے ہیں۔صدر ٹرمپ نے کھل کر ہر طرف جنگ کے حالات پیدا کردئیے ہیں۔ کئی ممالک پر ٹریڈ ٹیکس لگانے کے بعد یورپ پر بھی ٹیرف لگانے کا کہا ھے۔ اکیس لاکھ اسکوائر میٹر گرین لینڈ پر قبضہ کا عندیہ دیا ھے۔ گرین لینڈ ڈنمارک جو نیٹو ممالک کا ایک ملک ھے۔ جس پر امریکہ اپنا قبضہ چاہتا ھے۔ اس کو بچانے کے لئے یورپ یا تو سلامت رہے گا یا تو امریکہ سے جنگ کرئے گا۔ جس نیٹو کو امریکہ نے مسلمانوں کے خلاف کھڑا کیا تھا۔ وہ نیٹو آئیندہ امریکہ کے خلاف کھڑا ھونے جارہا ھے۔امریکہ کا کہنا ھے کہ اگر یورپ میری راہ میں آیا تو اس کے خلاف جائینگے ، نیٹو کو توڑ دینگے۔ گرین لینڈ معدنیات، گیس اور مینرل سے مالا مال ھے۔ اس لے اس پر قبضہ great Amarica great againکا حصہ ھے۔
ٹرمپ کا سٹائل ماضی سے مختلف ہے۔ ان کا اندازجارحانہ اور اپنے خلاف ہونے والے اقدامات کا ردعمل معلوم ہوتا ہے۔ ٹرمپ اپنے لوگوں کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ وہ ان کی خواہشات اور توقعات پوری کرنے آئے ہیں۔ ٹرمپ کے ایگزیکٹیو آرڈر ایک لیڈر کے بیانات ہیں، امریکی معاشرے ، سینیٹ و دیگر میں ان پر غور و فکر کا آغاز ہوگیا ہے۔ ان میں سے بعض عدالتوں میں چیلنج ہوگئے ہیں لہذا آگے چل کر معاملات میں بہت تبدیلی آئے گی۔ کوئی بھی ملک یا حکومت اپنی اسٹیبلشمنٹ سے ٹکرا کی متحمل نہیں ہوسکتی، نہ ہی ڈونلڈ ٹرمپ اپنی اسٹیبلشمنٹ سے ٹکر لے سکتے ہیں، میرے نزدیک ٹرمپ نے اپنے دل کا بوجھ ہلکا کیا ہے، نظام چلانے کیلئے انہیں اداروں کے ساتھ چلنا ہوگا۔ ٹرمپ کی شکل میں یہ نیو اتھاری ٹیرین پریزیڈینسی کا سٹائل ہے، یہ امریکی معاشرے کو قابل قبول نہیں ہوگا۔
یہ واضح ہونا چاہیے کہ امریکا کسی ایک شخص کی وجہ سے سپر پاور نہیں بنا بلکہ اس میں وہاں کی اسٹیبلشمنٹ، اداروں، سابق صدور ودیگر کا بڑا اور طویل کردار ہے۔ اس میں امریکا کے اتحادی ممالک بھی انتہائی اہم ہیں لہذا ٹرمپ سب کچھ یکسر ختم نہیں کرسکتے، انہیں اپنے احکامات اور پالیسیوں پر نظر ثانی کرنا ہوگی۔
وہ اپنے اتحادیوں پر پابندیاں نہیں لگا سکتے، اس کا شدید ردعمل آئے گا۔ امریکی کانگریس اور میڈیا میں تو ابھی سے ہی کچھ آوازیں اٹھ رہی ہیں لہذا آگے چل کر معاملات میں تبدیلی آئے گی۔ امریکی امداد سے دنیا میں منصوبے چل رہے ہیں، یہ بند ہونے سے غریب ممالک کو نقصان ہوگا۔
ٹرمپ نے اقوام متحدہ سے نکلنے کا بھی کہا ھے۔ اقوام متحدہ ایک اہم ماڈل ہے، خالانکہ یہ ادارہ کمزوروں کو دبانے کی روایات پر قائم ھے۔ جہاں اسرائیل اور بھارت جیسے غنڈوں کو فلطینوں اور کشمیریوں سے جارحیت کی مکمل آزادی اور سپورٹ حاصل ھے۔افغانستان،سوڈان،عراق، لبیا اور ارض فلسطین کو ملیا میٹ کرنے کھلی چھوٹ ھے ۔امریکی صدر روایات کو ختم نہیں کر سکتے، انہیں حقیقت پسندانہ پالیسیوں کی طرف آنا ہوگا۔ پاک امریکا تعلقات کبھی بھی مثالی نہیں رہے، ہم نے اپنی ضروریات کے حساب سے تعلق بنائے، ہمیں ہاتھ پھیلانے کے بجائے خود انحصاری کی طرف بڑھنا ہوگا، صرف اسی صورت میں امریکا اور دنیا کے ساتھ ہمارے اچھے تعلقات استوار ھوسکتے ہیں۔
پاکستان کے قیام سے لے کرآج تک ہمارا انحصار امریکا پر رہا ہے۔ ہمیں اس سے مالی و ملٹری امداد ملتی رہی ہے۔ ہمارا انحصار آج بھی ختم نہیں ہوا۔ اس وقت ڈونلڈ ٹرمپ کی توجہ امریکا کے اندرونی معاملات پر ہے، وہ بیرونی جنگوں میں وسائل ضائع نہیں کرنا چاہتے بلکہ چین کی طرح جنگ کے بجائے ترقی کی پالیسی اپنا رہے ہیں۔ وہ خود کو عالمی ادارہ صحت، جنگوں و دیگر کاموں سے دور کر رہے ہیں، انہوں نے اقوام متحدہ کے بجٹ میں بھی کمی کر دی ہے۔ یو ایس ایڈ جو خود مختار ادارہ تھا، اسے حکومت کے تابع لایا جا رہا ہے، اب ریاست طے کرے گی کہ کہاں خرچ کرنا ہے اور کیسے خرچ کرنا ہے۔
امریکا دنیا میں بطور سپر پاور جو کردار ادا کر رہا تھا، ٹرمپ اس سے پیچھے ہٹنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ امریکا کی مالی ذمہ داریوں میں کمی لا رہے ہیں تاکہ گریٹر امریکا کا خواب پورا کرسکیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسی کا مرکز چین ہے، وہ چینی مصنوعات پر زیادہ ڈیوٹی لگا رہے ہیں، ٹرمپ چاہتے ہیں کہ بڑی طاقت ہونے کے ناطے چین بھی عالمی معاملات میں کردار ادا کرے، امداد دے، صرف امریکا ہی کیوں۔ ٹرمپ کی پالیسیوں سے تجارتی جنگ میں شدت آئے گی۔ انہوں نے بارہا چینی امپورٹ پرڈیوٹی لگانے کی بات کی ہے۔ امریکی صارفین کی بڑی تعداد چینی مصنوعات کا استعمال کرتی ہے، یہ سستی اور ان کی پہنچ میں ہیں۔ جب ڈیوٹی لگے گی تو یہ مہنگی ہو جائیں گی، اس کا اثر یقینی طور پر امریکی عوام پر ہوگا۔ کنیڈا، میکسیو، یورپین یونین کے ممالک سے بہت ساری اشیا امریکا امپورٹ کرتا ہے، ڈیوٹی لگنے سے امریکی مارکیٹ میں مہنگائی کا طوفان آجائے گا۔ اسی طرح یہ ممالک بھی امریکی پراڈکٹس پر ڈیوٹی لگائیں گے جس سے عالمی معاشی ماڈل پر برا اثر پڑے گا۔
مالک بھی امریکی پراڈکٹس پر ڈیوٹی لگائیں گے جس سے عالمی معاشی ماڈل پر برا اثر پڑے گا ۔
دنیا کے ممالک ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں اور اسی طرح ہی آگے بڑھتے ہیں لیکن امریکی صدر اس کے برعکس کام کر رہے ہیں۔ میرے نزدیک پاکستان کی مشکلات میں اضافہ ہوگا، اس کا حل سفارتکاری نہیں بلکہ خود انحصاری ہے، جب تک ہم امریکا پر انحصار کم نہیں کریں گے، ہم متاثر ہوتے رہیں گے۔ امریکی صدر نے اسرائیل کے حوالے سے پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔ انہوں نے ابراہیم اکارڈ کی بات کی ہے۔ اس معاہدے کے تحت بہت سارے اسلامی ممالک نے اسرائیل کو تسلیم کرکے اس کے ساتھ سفارتی تعلقات کا آغاز کیا تھا، ان ممالک میں بحرین، مراکش، متحدہ عرب امارات و دیگر شامل ہیں۔ اگر ٹرمپ کی حکومت ختم نہ ہوتی تو وہ سعودی عرب کو بھی اس میں شامل ہونے پر آمادہ کر رہے تھے۔سعودی عرب کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنے سے اسرائیل کے لیے راہ ہموار ہوجائے گی، سعودی عرب کے اثرو رسوخ کی وجہ سے دیگر اسلامی ممالک بھی اسے تسلیم کریں گے۔ اب دوبارہ سے ٹرمپ ابراہیم اکارڈ کو آگے بڑھانے کیلئے کام کریں گے، اس سے پاکستان کیلئے بھی چیلنج پیدا ہوگا۔ دو ریاستی حل اور علیحدہ فلسطینی ریاست کے قیام کو تسلیم کیے بغیر اگر ٹرمپ ابراہیم اکارڈ پر اپنی پالیسی کے تحت اسرائیل کو تسلیم کروا لیتے ہیں تو یہ امت مسلمہ کیلئے ایک بڑی شکست تصور کیا جائے گا۔ڈونلڈ ٹرمپ کا انداز جارحانہ ہے۔ اس سے جہاں امریکا کو فائدہ پہنچے گا وہاں اسے بین الاقوامی طور پر نقصان بھی ااتھانا پڑے گا۔ٹرمپ کا کہنا ھے کہ فلسطینی ملبے کے ڈھیر کی بجائے مصر، لبنان اور دوسرے ممالک میں جا بسیں۔ اسرائیلی پرائم منسٹر نیتن یاہو نے کہا ھے کہ سعودیہ عرب کے پاس بہت زمین ھے وہ فلسطینیوں کو اپنے ہاں آباد کر لیں۔ یہ بیان گریٹر اسرائیل کی طرف اشارہ ہے۔ سعودی حکمرانوں کی اسرائیل نوازی کے منہ پر نیتن یاہو نے خود ہی تمانچہ رسید کردیا ہے۔مسلم ورلڈ کی آنکھیں اب کھل جانی چاہئیں۔ اللہ رب العزت مسلمانوں کا مزید خون بہنے سے محفوظ فرمائے، آمین!
٭٭٭