امریکی ادارے اور ٹرمپ اختلافات!!!

0
58
شمیم سیّد
شمیم سیّد

وائٹ ہائوس کے ایک ترجمان کے مطابق صدر ٹرمپ نے سیکرٹری ایجو کیشن لنڈہ مکموہن کو ہدایت کی ہے کہ وہ محکمہ تعلیم کے مکمل خاتمے کے لئے ضروری اقدامات کرے اور اس وقت وہاں کام کرنے والے محکمہ تعلیم کے تمام حکام کو ان کے ان کے متعلقہ صوبوں میں واپس بھیجنے کا انتظام کرے۔انہوں نے سیکرٹری تعلیم کو اس سارے عمل کے دوران وہ سب کچھ بڑے اچھے انداز میں اس طرح کرنے کی ہدایت کی کہ جس طرح امریکی قوم ان سے توقع رکھتی ہے۔ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکہ کے مرکزی محکمہ تعلیم کوناکارہ اور فرسودہ قرار دیتے ہوئے اسے ختم کرنے کا اعلان کیا ہے مگر امریکی آئین کے مطابق یہ محکمہ صرف انتظامی حکم سے ختم نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ کام صرف اور صرف امریکہ کی کانگرس ہی کر سکتی ہے۔ اس لئے اس خاتمے کے بارے ٹرمپ کے بیان کے باوجود کچھ حتمی کہنا قبل از وقت ہوگا۔ جب تک کہ اس کا بل کانگرس میں پیش ہو کر اس پر باقاعدہ بحث نہ ہو۔ وائٹ ہائوس کے ترجمان نے یہ بھی مانا کہ وہ لوگ اس محکمے کو کانگرس کی منظوری کے بغیر مکمل ختم نہیں کر سکتے ، اس کے لئے کانگرس کی منظوری تک چند معمولی ملازمین وقتی طور پر اس محکمے میں موجود رہ کر کچھ نہ کچھ کرتے رہیں گے۔گو ٹرمپ یہی کہتے ہیں کہ ان کا آرڈر فائنل ہے اور محکمہ تعلیم ختم ہو کر رہے گامگر ان کا آرڈر محکمے کے ختم ہونے کی گارنٹی نہیں۔محکمے کے خاتمے کے قانون کو پاس ہونے کے لئے کل ساٹھ ووٹ درکار ہیں۔ جو ایک مشکل کام ہے مگر صدر ٹرمپ کو یقین ہے کہ بل جب بھی پیش ہو گا، ڈیمو کریٹ ارکان بھی ان کا ساتھ دیں گے۔ جس کے نتیجے میں محکمے کو ختم کرنے میں ان کو کسی بڑی رکاوٹ کا سامنا نہیں ہو گا۔مرکزی محکمہ تعلیم کی بندش کے بعد امریکہ کے چند جاری پروگرامز کو شدید دھچکہ پہنچنے کا احتمال ہے۔امریکہ کا محکمہ تعلیم اس وقت چار کروڑ تیس لاکھ طالب علموں کو وظائف دے رہا ہے۔ مستقبل میں اس کی کیا صورت ہو گی، اس کا کچھ پتہ نہیں۔امریکہ بھر کی تمام یونیورسٹیاں بھی آزاد ہیں۔ ہر ایک کا نصاب دوسرے سے مختلف ہے۔ ان کے درمیان مقابلہ بھی رہتا ہے۔ان کا وہاں کی انڈسٹری سے بھی رابطہ ہے ، جہاں طلبا کو بہتر ریسرچ کے مواقع ملتے ہیں وہ یونیورسٹیاں طلبا کو بہتر سے بہترین دینے کی کوشش کرتی ہیں۔ ایسی یونیورسٹیاں بھی ہیں جن کا مجموعی بجٹ پاکستان کے بجٹ سے زیادہ ہے۔ پاکستان میں بھی عملی طور پر ایسی ہی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ہماری پرائمری اور سیکنڈری ایجوکیشن کی حالت کچھ اچھی نہیں۔ یہ بنیادی تعلیم ہے کہ جس پر پوری تعلیمی عمارت کی بنیاد رکھی جانی ہے۔ مگر ہم اسے نظر انداز کرتے ہوئے پورا زور ہائر ایجوکیشن پر لگا رہے ہیں۔ پی ایچ ڈی مافیہ جس کے بیشتر لوگوں کی ڈگریاں جعلسازی کی مرہون منت ہیں، ہائر ایجوکیشن کی ترویج کے لئے بہت سرگرم ہے ۔ غیر ضروری آسامیاں تخلیق کی جاتی ہیں۔ مافیا کے لوگ وہاں ایڈجسٹ کئے جاتے ہیں۔ یونیورسٹیوں کے لئے ہائر ایجوکیشن کمیشن جو کام کرتا ہے، وہ سارا کام سیکرٹریٹ میں محکمہ تعلیم کے فقط دو سیکشن آفیسر کر سکتے ہیں۔ لیکن صرف دو افسروں کی بجائے ایک مکمل ادارہ وہ کام کر رہا ہے، ایسا ادارہ ، ایسا سفید ہاتھی جس کا بھاری بجٹ قوم کے خزانے کو لوٹنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتا۔صوبوں نے بھی نقل کرتے ہوئے اپنے دائرہ کار میں بھی ہائر ایجوکیشن کمیشن بنا لئے ہیں۔ یہ ڈاکخانہ کی طرح کے ادارے بے فائدہ ہیں۔ پچھلے برسوں میںحد سے زیادہ مہنگائی ہونے کے باوجود یونیورسٹیوں کی گرانٹ میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ موجود ساری یونیورسٹیاں فنڈز کی کمی کا شکار ہیں۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن جیسے سفید ہاتھی کی بجائے یہ کام سیکر ٹریٹ کے عملے سے لے کر اس کمیشن کو ختم کر دیا جائے تو بجٹ میں خاصی کمی ہو سکتی ہے۔ یہ کام حکومت کو کبھی نہ کبھی کرنا ہی ہے۔ یہ لوگ نہ کریں گے تو کوئی نہ کوئی ٹرمپ نما حکمران پاکستان میں آ گیا تو یہ کام ہو جائے گا۔ یونیورسٹیاں اگر آزاد ہیں تو ایسے ادارے کی کیا افادیت ہے،کوئی اس بارے سوچے تو سہی، ایسے تمام ادارے جو خزانے پر بوجھ ہیں ان سے نجات حاصل کرنا بہت ضروری ہے۔ اصل کام پرائمری اور سیکنڈری لیول پر کرنے کا ہے۔ وہاں پوری طرح تبدیلی کے بعد بتدریج سوچ بچار کے بعد ہائر ایجوکیشن تک تبدیلی پہنچے گی تو وہ تبدیل حقیقی اور پائیدار ہو گی۔ پرائمری لیول پر اخلاقیات شامل کرنا ضروری ہے۔ ہم ان اساتذہ کو جنہوں نے کل کو ان کلاسوں کو پڑھانا ہے ، کرپٹ بنا کر بھیجتے ہیں۔سائنس والا سائنس یا میڈیکل میں جائے۔حسابی، میتھ، کامرس ، اکائوٹنسی یا کسی ایسی فیلڈ سے رجوع کرے۔لیڈری کے شوقین پولیٹیکل سائنس جیسے مضامین میں رجوع کریں ۔ آرٹ کے دلدادہ مختلف زبانوں اور ڈرائنگ وغیرہ کے مضمون اپنائیں۔ بہت سے مغربی ملکوں میں اسی انداز میں کام ہو رہا ہے۔ یہ نہیں کہ بچہ آرٹ کا دلدادہ ہو مگر ماں اور باپ اسے ڈاکٹر اور انجینئر بنانے پر تلے ہوں۔ بعد میں میرٹ پر نہ آنے کے سبب بچہ نہ گھر کا نہ گھاٹ کا۔ جن کا اثر طلبا بھی قبول کرتے ہیں۔یہ استاد طلبا کو اخلاق سے بے بہرہ کر دیتے ہیں۔بچوں کو پڑھانے کے لئے جن لوگوں کومنتخب کیا جائے ، وہ اعلی معیار اور حسن سیرت سے مالا مال ہوں تو یہ ایک بڑا کام ہوگا۔ مگر ہم یہ نہیں سوچتے۔ہم ابھی تک روایتی استاد ہی متعارف کرا رہے ہیں، جو اخلاق سنوارنے نہیں، بگاڑنے کا کام بہتر کرتے ہیں۔ ہمارے نزدیک ایک کاغذ کا ٹکرا جو جیسے بھی کسی نے حاصل کیا ہو، انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے، وہی کاغذ کھل جا سم سم کا کام کرتا اور باقی سب معیار پس پشت ڈال دیتا ہے۔ کوئی نہ تو اخلاقی معیار دیکھتا ہے اور ہی اس نئے ٹیچر کا ذہنی معیار۔ کاش ہم اس بارے بھی سوچیں۔ کہتے ہیں بچے چار مختلف ذہن رکھتے ہیں، سائنسی، حسابی، لیڈر اور آرٹ کے دلدادہ۔ سیکنڈری کے مضامین کچھ اس طرح ترتیب دینے کی ضرورت ہے کہ بچوں یا ان کے والدین کی بجائے بچوں کی کارکردگی ظاہر کرے کہ بچے کے لئے کون سی راہ بہتر ہے۔ میٹرک کے بعد اس بچے کو اس کی بہترین کارکردگی والی فیلڈ ہی میں بھیجا جائے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here