آج کل ہمیں حج جیسی اجتماعی عبادت سے جس قدر استفادہ کرنا چاہئیحاصل نہیں کرتے آج کے مسلمان حج کے عنوان سے جو اعمال انجام دے رہے ہیں وہ اسلام کی تعلیم سے اسی فیصد بلکہ اکثر نوے فی صد دور ہیں اور اسے فراموش کئے ہوئے ہیں لیکن اسلامی حج کی یہی باقی رہ جانے والی حیثیت اس قدر اہمیت کی حامل ہے کہ موجود حالات وشرائط کے تحت کسی بھی صورت میں اسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا البتہ اس کا مقصد یہ بھی نہیں کہ کسی صورت میں آئندہ بھی ایسے حالات نہیں رہیں گے لیکن اس عبادت کی حیثیت واہمیت میں کسی طرح کی کمزوری ہرگز نہیں آنی چاہئے ہاں اگر بنیادی طور پر حج کو ہی کمزور بنانے کی کوشش کی گئی تو اس وقت اس سلسلہ میں سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا کیونکہ جو کچھ اس وقت محسوس ہو رہا ہے اور اسلامی تاریخ کے مطالعہ کے بعد اس کی حقیقت سے آشنا ہونا ہے وہ یہ ہے کہ اگر حج کے مراسم نہ ہوتے تو اب تک جو کچھ باقی ماندہ خوبیاں دنیا کے مسلمانوں کے درمیان پائی جاتی ہیں اسلام کے دشمن انہیں بھی نابود کرچکے ہوتے اسلام میں فرقہ بازی، تفرقہ پروری خود ملت اسلامیہ کیلئے ایک بڑی مصیبت ہے مقصد یہ ہے کہ امت اسلام میں ہر گروہ دین فہمی کے سلسلہ میں آزاد ہے جو کچھ وہ اسلام کے بارے میں سمجھتا ہے اس پر عمل کرنے میں آزاد ہے اور اسلام سے متعلق اپنا طریقہ پیش کرے اس کے لئے کوئی مجبوری نہیں ہے کہ وہ کسی دوسرے مسلک والے کی پیروی کرے مسلک کے بڑے گروہ بھی چار ہیں فقہ میں حنفی ہیں شافعی ہیں مالکی ہیں حنبلی ہیں اور اصول عقائد واسلام میں اشعری ہیں معتزلی ہیں ہرگروہ خود مختار ہے اور یہ کہہ سکتا ہے کہ ہم اسلام سے متعلق اپنی آزاد فکر رکھتے ہیں اور ہماری منطق جس بات کو قبول کرتی ہے اس پر عمل کرتے ہیں O اگر حج جیسی عظیم عبادت نہ ہوتی تو اب تک مسلمانوں میں انتشار پھیلانے والے بے شمار فتنے سرے سے اسلام ہی کو فنا وبربادی کی نذر کرچکے ہوتے جن اتحاد بخش رابطوں کو رسولِ خدا اور مسلمانوں نے اپنے جگر کے خون اور اپنی جان ومال کا نذرانہ دے کر قائم کیا تھا حضرت علی نے تیس سال کی خاموش زندگی میں خونِ دل پی کر جس کی حمایت وحفاظت کی تھی امام حسن مجتبیٰ نے اپنے زمانہ کے تلخ حالات کے ہاتھوں ایک غیر مطلوب دستاویز قبول کرکے جسے محفوظ رکھا اور جنگ روک دی تھی ،امام حسین اور ان کے بعد امام سجاد زین العابدین سے لے کر امام حسن عسکری تک تمام آئمہ طاہرین نے امت کے اسی اتحاد ویک جہتی کے پیشِ نظر ہر طرح کے مصائب وپریشانیاں برداشت کی تھیں اگر مراسم حج نہ ہوتے تو ان بزرگوں کی یہ تمام قربانیاں اب تک نہ جانے کب کی نقشِ عدم بن چکی ہوتیں یہ درست ہے کہ ہمارے اتحاد میں رخنہ ڈالنے والوں نے اہلِ سنت کے عام لوگوں کے ذہن میں ہماری مخالفت کی بات بھر دی ہے حقیقت یہ ہے کہ ان کی اکثریت حضرت علی وآئمہ کا احترام کرتی ہے ہم مانتے ہیں کہ اس طرح کی غلط تبلیغات نے اپنا پورا پورا اثر دکھایا پھر بھی آخر سال میں ایک بار مختلف ممالک سے کم از کم پانچ لاکھ سے زیادہ شیعہ اور تیس لاکھ سے زیادہ اہلِ سنت مکہ میں ایک جگہ جمع ہوتے ہیں اگر یہ ذرا ہمت وحوصلہ پیدا کرکے ایک دوسرے کے بارے میں غور کریں اور آپس میں مل کر ایک دوسرے کے حالات معلوم کریں تو بڑی آسانی سے یہ بات آپ کی سمجھ میں آجائے گی کہ یہ سب افواہیں تھیں جھوٹ اور فریب تھا سوچیے ابھی حج کی شکل میں کم از کم سال میں ایک ہی بار سہی اس دروغ آزمائی کا موقع تو مسلمانوں کے پاس موجود ہے اگر حج کے اسی ایک فائدہ کو محسوس کیا جائے تو یہی اپنے آپ میں بہت بڑا اور اہم ترین فائدہ ہے لہٰذا ہمیں ذاتی طور پر حج کی اس امتیازی شان کے تحت اس بات پر زور دینا چاہیے کہ حج کے مراسم ہر سال زیادہ سے زیادہ جمعیت اور شان وشوکت کے ساتھ ادا کئے جانے چاہئیں، یہ جو آپ دیکھتے ہیں کہ حضرت علی اپنی وصیت میں اپنے بیٹے امام حسن اور اہلِ خاندان کو اس قدر تاکید کرتے ہوئے فرماتے ہیں اللہ اللہ خدا کی یاد میں مشغول رہو اس کے لئے تقوی اختیار کرو اپنے دل میں خوفِ خدا بسائے رہو حج ادا کرو اور اپنے اللہ کے گھر اور اس کے اطراف کو خالی وتنہا نہ چھوڑو ورنہ دوسرے اس پر قبضہ کرلیں گے یہ سب اسلئے ہے کہ حج چاہے مقصد کے اعتبار سے جس قدر ضعیف وکم اثر ہوجائے پھر بھی ہمارے لئے ایک عظیم پناہ گاہ کی حیثیت رکھتا ہے اور ایسی عظیم پناہ گاہ کو کسی بھی حال میں خالی نہیں رکھنا چاہئے اس زمانہ میں موجودہ حج سے جو فائدہ ہم حاصل کرتے ہیں مختلف برسوں اور مختلف شرائط حالات کے تحت یہ حج اسلامی حج سے صرف دس سے بیس فی صدی تک ہم آہنگی رکھتا ہے لہذا اس پر عظمت عبادت کے اس اسی (80) سے نوے (90) فی صد حصہ کو بھی اختیار کرنے کی پوری کوشش کرنی چاہئے۔
٭٭٭