روس میں نام نہاد”انصاف مارچ”

0
68

روس میںمسلح فوجی بغاوت ، یہ وہ خبر تھی جو 23اور24جون کو دنیا بھر کے میڈیا کی ہیڈ لائن بن گئی، امریکہ سمیت مغربی ممالک کی نظریں روس پر مرکوزہوگئیں اور وہ اپنے مخالف ملک جواس وقت ان کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کے ساتھ کھڑا ہے کے اندر خانہ جنگی اور خون ریزی کو دیکھنے کیلئے بے تاب رہے ، کیونکہ یہ ایک ایس موقع تھا جب تقریبا ڈیڑھ سال سے روس اپنے ہمسایہ ملک یوکرین میں فوجی آپریشن کررہا ہے ، اس کے مخالف نیٹو، یورپ، انگلینڈ اور امریکہ یوکرین کے ساتھ کھڑے ہیں اور وہ اکیلا ان کا مقابلہ کررہا ہے حالانکہ ان ممالک نے روس پر تاریخ کی اتنی بدترین پابندیاں عائد کردی ہیں لیکن اس کے باوجود روسی معیشت اب بھی مضبوطی سے کھڑی ہے ۔ یوگینی پریگوزن کی مسلح فوجی بغاوت نے مخالفین میں امید کی کرن جگا دی کہ کیونکہ انہیں ویگنرگروپ کی طاقت کا اندازہ تھے جس نے باخموت کو اپنے زوربازو سے یوکرین سے چھین کر روسی فوج کے حوالے کیا۔ اس لئے صدر بائیڈن نے بھی روس میں مسلح بغاوت پر نظریں جمالیں۔ویگنر پی ایم سی گروپ ایک روسی نیم فوجی تنظیم ہے جس کی کوئی واضح قانونی حیثیت نہیں ہے ۔سیدھے الفاظ میں، یہ ایک چھوٹی فوج ہے جس کا سرکاری طور پر روسی فیڈریشن کی وزارت دفاع یا کسی اور ریاستی ڈھانچے سے تعلق نہیں ہے۔ یہ ایک نجی کمپنی ہے جس کا سربراہ یوگینی پریگوزن ہے۔ برطانوی وزارت دفاع کا چند ماہ قبل کہنا تھا کہ ویگنر گروپ تقریبا یوکرین میں 50ہزار جنگجوئوں کی کمانڈ کر رہا ہے ۔23جون کو یوگینی پریگوزن نے اپنے ٹیلی گرام چینل پر کچھ ویڈیو پیغامات جاری کئے جس میں اس کا کہناتھاکہ روسی وزارت دفاع کے یونٹوں نے مبینہ طور پر پی ایم سی کیمپ پر راکٹ فائر کیے ہیںجس میں مبینہ طور پر اس کے کئی جنگجو مارے گئے ہیں۔ پریگوزن نے روسی وزیر دفاع سرگئی شوئیگو اور روسی چیف جنرل اسٹاف کے سربراہ ویلری گراسیموف پر سنگین جرائم کا الزام عائد کیاجبکہ روسی وزارت دفاع نے فوری طور پر اس اطلاع کی تردیدکر دی۔ پریگوزن کی پریس سروس کی طرف سے شائع ہونے والے کیمپ کی ویڈیو سے، یہ بھی واضح نہیں ہے کہ راکٹ حملے ہوئے ہیں یا نہیں۔اگلی صبح یعنی ہفتہ کے روز پریگوزن نے اعلان کیا کہ ویگنر کے 25ہزار جنگجوماسکو کی جانب ”انصاف مارچ”کریں گے ۔ پریگوزن اور اس کے گروپ نے ماسکو سے تقریبا 1100کلومیٹر دورایک ملین سے زائد آبادی کے شہر راستوونادانو میں روس کے جنوبی ملٹری ڈسٹرکٹ کے ہیڈ کوارٹر اور شہر کے مرکز میں کئی انتظامی عمارتوں پر قبضہ کر لیا۔گروپ کا ایک حصہ راستوونادانو میں رہا اور باقی نے ماسکو کی جانب پیش قدمی شروع کردی۔اس دوران یوکرین کے ایک انگریزی آن لائن نیوز پورٹل ”دی کیف انڈیپنڈنٹ” نے روسی صدر ولادیمیر پوتن کے لاپتہ ہونے کا دعوی کردیا۔ ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ پوتن ملک چھوڑ کر جا سکتے ہیں۔یعنی دنیا بھر کے میڈیا کی نظریں روس پرمرکوز ہوگئیں اور ہرکوئی اپنی اپنی قیاس آرائیوں کو ”بریکنگ نیوز” کی صورت میں پیش کرتا رہا۔اس صورتحال کے پیش نظر روسی صدرولادیمیر پوتن نے ٹیلی ویژن پر ہنگامی خطاب کیا۔ صدر پوتن نے ویگنر پی ایم سی کے اقدامات کو ملک اور لوگوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے مترادف قرار دیا۔ پوتن نے جنگجوئوں پر زور دیا کہ وہ اپنا ذہن بدل لیں اور مسلح افواج کو حکم دیا کہ وہ مسلح بغاوت کو منظم کرنے والوں کوکچل دیں۔روس کی ایف ایس بی ایجنسی نے صورتحال کی سنگینی اور روسی فیڈریشن میں تصادم کے بڑھنے کے خطرے کے پیش نظر یوگینی پریگوزن کی جانب سے مسلح بغاوت کی کال پر فوجداری مقدمہ قائم کردیا ۔جس کی روسی قانون میں سزا 20سال ہے۔ترکی اور چین نے روس مسلح بغاوت میں روس کے ساتھ کھڑے ہونے کا اعلان کیا جبکہ چیچنیا کے صدر رمضان قادروف نے مسلح بغاوت کو کچلنے کیلئے اپنی فوجیں فوری طور پر راستوونادانو بھیج دیں۔
صدر پوتن کے خطاب کے بعد بیلاروس کے صدر الیگزینڈر لوکا شینکو نے ویگنر کے سربراہ پریگوزن کے ساتھ مذاکرات شروع کردئے، یہ مذاکرات دن بھر جاری رہے۔ اورویگنر گروپ کی ماسکو کی جانب پیش قدمی بھی جاری تھی کیونکہ صدر پوتن نے اس مسلح بغاوت کو کچلنے کا بھی اعلان کیا تھا اس لئے تصادم کا خطرہ تھا اور یقیناپریگوزن اور اس کے ساتھیوں کوزندگی سے ہاتھ دھونا پڑ سکتے تھے۔اس لیے بیلاروسی صدر نے اس کا درمیانی راستہ نکالا اور آخر کاریہ مذاکرات کامیاب ہوئے اوریوگینی پریگوزن نے بیلاروس کے صدر الیگزینڈر لوکاشینکو کی روس میں ویگنر کمپنی کے مسلح افراد کی نقل و حرکت کو روکنے اور کشیدگی کو کم کرنے کی تجویز کو قبول کرلیا اور ماسکو کی جانب پیش قدمی کوروک دیا ۔ان مذاکرات کے بعدپریگوزن نے ایک آڈیو پیغام جاری کیاجس میں اس نے کہا کہ ان کی فورسز ماسکو سے صرف 200 کلومیڑ کے فاصلے پر ہیں لیکن انہیں واپس جانے کا حکم دے دیا گیا ہے۔ ہم اپنے فوجی دستوں کا رخ موڑ کر پلان کے مطابق فیلڈ کیمپوں میں واپس جا رہے ہیں۔انہوں نے اپنے فوجی دستوں کو اڈوں پر واپس جانے کی ہدایات جاری کیں جس کے بعد ویگنر کے جنگجو کیمپوں میں واپس جانا شروع ہوگئے۔اور یوں 24گھنٹے میں یہ نام نہاد انصاف مارچ ختم ہوا اورمسلح بغاوت دم توڑگئی۔
اس کے بعد بیلاروسی صدر لوکا شینکو نے بھی مذاکرات کامیاب ہونے اور ویگنر جنگجوئوں کی واپسی کی تصدیق کر دی اور صدر پوتن کو اس ساری صورتحال سے آگاہ کیا۔ روسی صدر کے ترجمان دیمتری پیسکوف نے بتایا کہ ویگنر گروپ کے جنگجوئوں نے روستوو نادانو میں روس کا فوجی ہیڈکوارٹر خالی کر دیا ہے ۔انہوں نے اعلان کیا کہ ویگنر گروپ کے سربراہ پریگوزن کے خلاف مقدمہ نہیں چلایا جائیگا بلکہ یوگینی پریگوزن کے خلاف فوجداری مقدمہ خارج کر دیا جائے گا،ان کا کہنا تھا کہ جن جنگجوئو ں نے روس کے خلاف پریگوزن کے احکامات ماننے سے انکار کردیا تھا ۔ ان کے خلاف بھی کارروائی نہیں ہو گی بلکہ ان کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے ان کا روسی وزارت دفاع کے ساتھ معاہدہ کرکے باضابطہ طور پر روسی فوج میں شامل کرلیا جائے گا۔ دیمتری پیسکوف کا کہنا تھا کہ معاہدے کے تحت یوگینی پریگوزن بیلاروس چلے جائیں گے۔اور بغاوت میں شریک دیگر افراد کو حفاظتی ضمانتیں دی جائیں گی ۔
تادم تحریر صدر پوتن نے کہا ہے کہ وگنر گروپ کے جنگجوئوں اور کمانڈروں کی بھاری اکثریت بھی روسی محب وطن ہیں،اس لئے بحران کے حل کے لیے جو وعدہ انہوں نے مذاکرات کے دوران کیا تھا اسے برقرار رکھا جائے گا۔انہوں نے ویگنر گروپ کے جنگجوئوں کو تین آفرز دیں، روسی فوج سے معاہدہ کرکے فوج جوائن کرلیں، اپنے گھر واپس چلے جائیں یا بیلاروس چلے جائیں۔روس میں حالات اس وقت معمول پر ہیںجیسے کچھ ہوا ہی نہیں لیکن روس کے مخالفین کی امید یں ضرور دم توڑ گئی ہیں۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here