دراڑیں تو خیر پڑنی ہی تھیں، دیر یا سویر کی بات تھی اور وہ کسر متحدہ قومی موومنٹ کے سینئر رہنما سید مصطفی کمال نے پوری کردی۔ وہ ذاتی نہیں بلکہ پارٹی کے ترجمان کی حیثیت سے ببانگ دہل فرمادیا کہ عمران خان کی مقبولیت پی ٹی آئی کو کچلنے یا لوگوں کو زبردستی پارٹی چھڑوانے سے ختم نہیں ہوگی، کیونکہ پاکستان کے عوام کو تحریک انصاف کے رہنما عمران خان سے محبت ہے ، اور وہ دوسری پارٹی کے رہنماؤں سے نفرت کرتے ہیں۔ اِس کی وجہ پاکستان میں مورثی سیاست کا رواں ہونا بھی ہے، اور وہ ہمیشہ دو پارٹی کی حکومت کو دیکھتے دیکھتے تنگ آ چکے ہیں ، وہ نئے ، مخلص اور عوام کے درد و دکھ کو محسوس کرنے والے رہنماؤں کو آزمانا چاہتے ہیں۔مصطفی کمال نے مزید کہا کہ اگر آصف زرداری اپنے بیٹے بلاول بھٹو کو وزیراعظم بنانا چاہتے ہیں تو وہ کراچی والوں کو پہلے اُن کا حق دیں۔ کراچی کی آبادی سندھ کی کُل آبادی سے 50 فیصد زیادہ ہے۔ لیاقت آباد والے پورے لاہور کے شہر سے زیادہ ٹیکس دیتے ہیں لیکن اِس کے باوجود صوبہ سندھ میں اُن کیلئے ملازمت کا دروازہ بند ہے۔اُنہیں رات کو بجلی اور صبح کو گیس نہیں ملتی۔ایم کیو ایم کے رہنما مصطفی کمال نے کہا کہ سندھ کے طاقتور لوگ جس کی زمین پر چاہیں دیوار کھڑی کر لیں وہ زمین اُن کی ہوگئی۔ سندھ کے وزیراعلی تعصب کی عینک نہیں اُتار رہے ہیں۔ دراصل ایم کیو ایم کے رہنما سید مصطفی کمال کا بیان پی ڈی ایم کیلئے یہ عندیہ تھا کہ اُس کی اور ایم کیو ایم کی راہیں جدا ہیں ، اور وہ ساتھ نہیں چل سکتے ہیں۔ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کی سیاست کی کیمسٹری مختلف ہے۔ پیپلز پارٹی رشو ت اور تاوان کی رقموں سے منصفانہ شیئر ایم کیو ایم کو نہیں دے سکتی اور اُنہیں ہمیشہ یہی مشورہ دیتی ہے کہ وہ بھتے کی رقم سے اُسی طرح اپنی ضروریات پوری کریں جس طرح اُن کے آباؤاجداد سلطنت مغلیہ کے بادشاہوں یا انگریزو ںکے وظیفے سے پوری کیا کرتے تھے۔ بلاشبہ ایم کیو ایم اپنا سیاسی میپ اپنے رہنماؤں کے سپرد کردیا ہے ، جس میں پی ڈی ایم سے سے اشتراک کی کوئی لکیریں نہیں ہیں۔ یہ ساری حقیقتیں اُس وقت سامنے آئی ہیں جب ایم کیو ایم کو یہ یقین دہانی ہوگئی کہ آئندہ عام انتخابات میں پی ڈی ایم کے جیتنے کے کوئی امکانات نہیں ہیں ، اور اُس کی شکست کے ساتھ اُس کی بھی مٹی پلید ہو سکتی ہے۔ایم کیو ایم کے رہنماؤں کو اِس بات کا بھی احساس ہورہا ہے کہ وزارت کا حصول اُن کے مسائل کا حل نہیں ہے۔ سارا شہر کراچی کوڑے کرکٹ کا ڈھیر بنا ہوا ہے۔ ملیر ، شاہ فیصل کالونی ، لانڈھی اور کورنگی کے علاقوں میں مکانات تو دور کی بات سرکاری دفاتر کے سامنے غلاظت کا چٹان ایستادہ ہے ، جس سے اتنی زیادہ تعفن خارج ہوتی ہے کہ لوگ میلوں دور سے اُس کے قریب سے گذرنے سے گریذ کرتے ہیں۔ یہ حالت زار پیپلز پارٹی کی ریشہ دوانی، بدعنوانی اور دیدہ و دانستہ طور پر عوامی نمائندوں مثلا”میئر اور کونسلرز کو اُن کی ذمہ داری سے محروم رکھنے کا شاخسانہ ہے۔کراچی والوں کے حقوق کی بات کرنا پیپلز پارٹی کی قیادت کیلئے گناہ کبیرہ سے کم نہیں۔ اِدھر پیپلز پارٹی بھی پی ڈی ایم کا ساتھ چھوڑنے کیلئے اپنا پر تول رہی ہے۔ پیپلز پارٹی اِس نتائج پر پہنچ چکی ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے ساتھ اِس کی اشتراک ایک ایسے ملک کے وزیرخارجہ کے عہدے پر جاکر منجمد ہوجاتی ہے ، جس کی امداد دینے والے ملکوں میں اُن کی سواگت ایک ڈیلیوری بوائے سے زیادہ نہیںہوتی۔مغربی ممالک میں لوگ ایک ایسے شخص کو پسند نہیں کرتے جس کا وزن متواتر برھتا جارہا ہو۔ وہ یہ سوچتے ہیں کہ جو شحص اپنی صحت کا خیال نہیں رکھتا وہ اپنے ملک کے مسائل کو کس طرح حل کر سکتا ہے۔
بیچارے بلاول بھٹو اِسی سوچ کا شکار ہیں۔ بہرکیف اِس حقیقت میں کسی شک کی گنجائش نہیں کہ بلاول بھٹو کا وزیر خارجہ کے عہدے پر فائز ہونا اندھا بانٹے ریوڑی کے زمرے میں آتا ہے۔ اُنہیں دنیا کے مسائل و حالات کا اتنا علم نہیں جتنا کہ بھارت کے وزیر خارجہ جے شنکر کا ہے۔ بلاول بھٹو ہر مسائل کے بارے میں صرف سطحی معلومات رکھتے ہیں جبکہ جے شنکر اُن مسائل کا بیکراں سمندر اپنے اندر پنہاں کئے ہوے ہیں۔
9 مئی کا سیاسی مظاہرہ پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں اور کارکنوں پر ظلم و اذیت ، جبر و تشدد کا جو طوفان بپا کیا ہوا ہے تاریخ میں اُس کی مثال نہیں ملتی۔ پاکستان سے تحریک انصاف کے درجنوں کارکن
اِن ہی حالات سے فرار ہوکر کشتی کے ذریعہ دبئی جارہے تھے۔ راستے میں اُن کی کشتی باد مخالف کا شکار ہوگئی اور تقریبا”ڈوبنے والی تھی ۔ اِسی دوران روس کا ایک ٹینکر اُدھر سے گذر رہا جس نے کشتی کو سہارا دیا اور اُس کے مسافروں اپنے جہاز میں پناہ دے دی۔ کارکن جو دبئی جانے کیلئے گھر سے نکلے تھے سینٹ پیٹرز برگ ، روس پہنچ گئے۔ اُن کارکنوں کا پاکستان واپس جانے کا کوئی ارادہ نہیں۔
تقریبا “ایک ہزار خواتین بھی پاکستان کی جیلوں میں گل سڑ رہیں ہیں۔ اگرچہ اُن کی نگرانی کیلئے خاتون پولیس کانسٹبل تعینات رہتی ہیں لیکن اِس کے باوجود بھی مرد پولیس کے اہلکاراُن سے خط و کتابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ یہ پیغام بھی بھیجتے ہیں کہ وہ بھی عمران خان کے حمایتی ہیں اور اُنہیں ہی ووٹ دینگے۔ دوسرا پیغام جو اُن کی جانب سے آتا ہے وہ شادی کا ہوتا ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ چند لڑکیوں نے جیل میں شادی بھی رچا لیں ہیں۔ جب جیل سے کسی خاتون کی رہائی ہوتی ہے تو جیل کے حکام اُس خاتون کو گھر جانے کیلئے کوئی سواری بھی مہیا نہیں کرتے ، حتی کہ کرائے کی کوئی رقم بھی نہیں دیتے، یہ ذمہ داریاں دوسری خواتیں با احسن انجام دے دیتی ہیں۔