ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کا مطالبہ!!!

0
63
شمیم سیّد
شمیم سیّد

امریکی قید میں پاکستانی شہری ڈاکٹر عافیہ صدیقی دہشتگردی کے خلاف جنگ سے منسلک کرداروں میں سب سے زیادہ مظلوم اور اہم ترین کردار ہے اس کی کہانی کا آغاز مارچ 2003ء سے ہوتا ہے جب اسے تین چھوٹے بچوں کیساتھ کراچی سے اغواء کر کے لاپتہ کیا گیا۔ پانچ سال بعد 2008ء میں افغان قید سے رہائی پانے والے صحافی پون رڈلے کے ذریعے بگرام جیل افغانستان میں امریکی قیدی کی حیثیت سے عافیہ کی موجودگی کا انکشاف ہوا، یہاں ان پر امریکی قیدیوں پر حملہ اور مارنے کی کوشش کا الزام لگا کر سازشی مقدمہ تیار کیا گیا۔ 2009ء میں انہیں امریکہ منتقل کر دیا گیا جہاں اسی الزام کے تحت مقدمہ چلا کر جُرم ثابت کیے بغیر 86 سال قید کی سزا سنا دی گئی اور اس وقت سے ان کے اہل خانہ ان کی با عزت رہائی کیلئے کوشاں ہیں۔ افسوس صرف اس بات کا نہیں کہ پاکستان کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی امریکہ کی قید تنہائی میں 20 سال گزر گئے ہیں بلکہ افسوس اور حیرت تو اس بات پر ہے کہ 2003ء سے لے کر اب تک پاکستان میں کتنے وزیراعظم آئے مگر کسی نے بھی پاکستان کی تعلیم یافتہ بیٹی کو پاکستان لانے کی کوشش ہی نہیں کی سب نے اپنے عمل سے ہی ثابت کیا کہ انہیں صرف اپنے مفادات عزیز ہیں ان کے نزدیک تو اپنے ملک کے شہریوں کی کوئی وقعت ہی نہیں ہے اور نہ ہی اپنے ملک کی عزت کا کوئی پاس ہے۔ اگر انہیں اپنے ملک کی عزت کا پاس ہوتا تو وہ پاکستان کی بیٹی کو جلد از جلد پاکستان واپس لانے کی کوشش کرتے لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ اب 20 سال بعد دوبارہ سے ان کیلئے کوششیں کی جا رہی ہیں اور لگتا ہے کہ اس بار ان کو ہماری حکومت کی پُشت پناہی حاصل ہے جس طرح ان کی بہن ڈاکٹر فوزیہ کو امریکہ کا ویزہ دیا گیا اور ہمارا قونصلیٹ آفس جس طرح ان کو پروٹوکول دے رہا ہے اور ہر جگہ ہمارے نئے قونصل جنرل جناب آفتاب چودھری ان کیساتھ ہوتے ہیں۔ جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق بھی ان کے ساتھ آئے تھے کیونکہ ڈاکٹر عافیہ کا تعلق جماعت اسلامی سے بتایا جاتا ہے۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کوئی عام خاتون نہیں ہیں بلکہ ان افراد میں سے ایک ہیں جن پر ہر ملک کو فخر ہونا چاہیے۔ ان کی بڑی بہن فوزیہ دماغی امراض (نیورولوجی) کی ماہر ہیں۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی حافذ قرآن ہیں اپنی تعلیم کا بڑا حصہ یونیورسٹی آف ٹیکساس سے مکمل کیا۔ لوگ ان کے بارے میں زیادہ نہیں جانتے انہوں نے امریکہ میں علم الاعصاب (دماغی علوم) پر تحقیق کر کے پی ایچ ڈی کی، ڈاکٹر عافیہ نے ا یک انعام یافتہ ایم آئی ٹی کی گویجویٹ خاتون کا بھی اعزاز حاصل کیا اور اعلیٰ پائے کی سائنسدان بن چکی تھیں۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی ملک میں طبقاتی تعلیمی نظام کے خاتمے اور ایک متبادل یکساں نظام تعلیم کو رائج کرنا چاہتی تھیں۔ امریکی ریاست ٹیسکاس کے شہر ڈیلاس کی فیڈرل جیل میں گزشتہ بیس سال سے مقید ہیں۔ ڈاکٹر فوزیہ جو ان ک یبہن ہیں اور جو پاکستان سے آئی ہیں اپنی بہن سے ملاقات کے بعد ان کی جذباتی تقریر نے لوگوں کو آبدیدہ کر دیا انہوں نے ہیوسٹن میں بتایا کہ جب میں اپنی بہن سے ملی تو اس نے مجھے پہچان لیا لیکن میں اسے نہ پہچان سکی اس کی حالت دیکھ کر کہ وہ اب تک زندہ ہے یہی ایک معجزہ ہے۔ میں نے جیل میں ظالم اور مظلوم کو ایک ہی چھت تلے دیکھا ہے، میری بہن سہولیات سے محروم تھی اور دنیا سے کٹی ہوئی تھی، لوگ کہتے ہیں کہ وہ مجھ سے ملنا نہیں چاہتی تھی جبکہ ایسا نہیں ہے اس کو مینٹل سینٹر میں کیوں رکھا گیا ہے، جبکہ اس کو جو سزا دی گئی ہے وہ جھوٹ پر مبنی ہے۔ بیس سال وہ گزار چکی ہے ابھی 67 سال باقی ہیں کیا وہ باقی زندگی جیل میں کاٹے گی ا ہماری قوم اور حکومت اس کی رہائی کیلئے کوئی قدم اُٹھائے گی۔ امریکہ اپنے شہریوں کو الزام ثابت ہونے کے باوجود چھڑا کر لے جاتاہے اور ہم ایک بے قصور کو نہیں چھڑوا سکتے۔ لگتا ہے اس دفعہ جس طرح ہماری حکومت بیس سال بعد اس پر ایکشن لے رہی ہے اور کوشش شروع کر دی ہے اس کے پیھچے کچھ نہ کچھ تو کہان ہے شاید ڈاکٹر آفریدی کو امریکہ کے حوالے کر دیا جائے اور یہی ایک حل ہے ،ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو چھڑوانے کا اس کے علاوہ کوئی اور حل نظر نہیں آتا۔ ڈاکٹر فوزیہ نے تمام اوورسیز پاکستانیوں سے اپیل کی ہے کہ وہ ہمارا ساتھ دیں اور ہماری بہن کو اس اذیت سے نجات دلوائیں، وہ ویسے بھی اپنی زندگی کے آخری لمحات گزار رہی ہے اپنے بچوں کو دیکھ لے اللہ تعالیٰ مدد فرمائے۔ آمین۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here