روتے ہوئے، طیبہ کی فضا چھوڑ چلے ہیں !!!

0
9

اکیس جون کا جمع المبارک، ہمارے سفرِ حج کا آخری دن تو تھا ہی لیکن وہ مدینہ منور سے رخصتی کا غم ناک جمع الوداع بھی بن گیا۔ ویسے مدینہ میں ہماری آخری رات بہت پر رونق رہی کیونکہ اب حجاج کرام کی بہت بڑ ی تعداد، مکہ سے یہاں پہنچ چکی ہے اور بڑے ذوق شوق سے روضہ رسول ۖ پر حاضری دے رہی ہے۔ حیرت انگیز طور پر، بے پناہ رش ہونے کے باوجود بھی مدینہ کا سکون پہلے کی طرح برقرار ہے۔ دنیا بھر سے آئے ہوئے مختلف نسلوں اور رنگوں کے لوگ، مختلف زبانیں بولتے ہوئے بھی، ایک دوسرے کا ایسے خیال رکھے ہوئے ہیں کہ جیسے ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہوں۔ درحقیقت، ہم سب آدم اور حوا کی اولاد ہی تو ہیں۔ لیکن اس کا صحیح اندازہ مسجدِ نبوی ۖ میں گنبدِ خضرا کے سائے میں ہی ہوتا ہے۔بہت زیادہ رش کو دیکھتے ہوئے، ہم خطبہ جمع سے چند گھنٹے پہلے ہی مسجد کے اندرونی حصے میں جا کر براجمان ہو گئے۔ مسجد کے اندر ائیر کنڈیشننگ کا سسٹم بے حد شاندار ہے۔ ہم نے اطمینان سے اپنی عبادات بھی جاری رکھیں اور آبِ زم زم سے بھی لطف اندوز ہوتے رہے۔ اس دوران دعائیں اور التجائیں بھی جاری رہیں۔ یومِ عرفہ والی گردان یہاں بھی بڑی کام آئی۔ مسجدِ نبوی ۖ کی مخصوص لہجے والی اذان کا وقت ہوا تو ہم خیالوں کی دنیا میں، اذانِ بلالی تک جا پہنچے۔ بالکل اسی جگہ وہ اذان گونجا کرتی تھی۔ خطبہ جمع کافی مختصر تھا لیکن امام صاحب نے نماز تو بالکل ہی مختصر کر دی۔ پتہ چلا کہ مسجد کے باہر نمازیوں کیلئے موسم بہت ہی زیادہ گرم تھا۔ ان کی سہولت کو دیکھتے ہوئے، امام صاحب نے نماز مختصر کردی۔ائیر پورٹ کی طرف ہماری روانگی میں اب صرف دو تین گھنٹے ہی باقی رہ گئے تھے۔ ممبرِ نبوی ۖ، ریاض الجنہ اور روضہ رسول ۖ میرے سامنے تھے۔ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ رخصتی کا عمل کیسے شروع کیا جائے کہ اتنے میں بلال بیٹا وہیل چئیر لے کرآگئے۔اسے شاید اندازہ ہو چکا تھا کہ پاپا اپنے پیروں پر چل کر تو یہاں سے واپس نہیں جائیں گے۔ خیر خراماں خراماں ہم اپنے کمرے تک جا پہنچے اور ائیر پورٹ کی جانب تیاری کا عمل شروع ہو گیا۔گاڑیوں میں سامان لوڈ کر نے میں کچھ دیر لگی اور اس طرح مجھے ایک مرتبہ پھر حرمِ نبوی ۖ کو الوداع کہنے کا موقع مل گیا۔ بہرحال، بالآخر تو رخصت ہونا ہی تھا۔ مدینہ کی گلیوں سے گزرتے گزرتے، ائیر پورٹ جا پہنچے۔ برادرم عمران صدیقی صاحب کی قیادت میں کئی اور احباب بھی ہمیں رخصت کرنے آئے ہوئے تھے ۔ انکی مدد سے آبِ زم زم کے حصول اور سامان کی ان لوڈنگ وغیرہ کے مسائل آسانی سے حل ہوگئے۔ خوشگوار حیرت یہ ہوئی کہ مدینہ ائیرپورٹ پر ٹرکش ائرلائنز نے اپنے مسافروں کیلئے بہت اچھے انتظامات کئیے ہوئے تھے۔ ہمیں تو انہوں نے ہاتھوں ہاتھ لیا اور ہماری اکنامی کلاس کی ٹکٹوں کو بزنس کلاس میں اپگریڈ کردیا۔ اپنے پیارے نبی ۖ کی نگری میں اتنی زیادہ آسانیوں کا حاصل ہوجانا، بڑی سعادت کی بات تو لگی لیکن سوچ یہی رہی کہ!
ایں سعادت بزور بازو نیست
تانہ بخشد خدائے بخشندہ
اتنی ساری عنایات دیکھ کر یہ خیال بھی آیا کہ اللہ ربِ العزت ضرور اپنے محبوب ۖ کے غمزدہ مہمانوں کی دل جوئی فرما رہے ہیں تاکہ ان کا یہ تکلیف دہ سفر آسان ہو جائے۔ میرے جیسے کم ہمت انسان کیلئے، ہزاروں میل کا سفر طے کرکے مکہ اور مدینہ حاضری دینا اور اب واپسی کے سفر کا آغاز کرنا، بالکل انہونی سی بات ہی لگتی ہے۔ ان سب مراحل میں، مدینہ منور سے رخصت ہونا تو سب سے مشکل مرحلہ ہے جو آج ہمیں درپیش ہے۔ عبدالجلیل صاحب کے بقول:
ہم شہر مدینہ کی ہوا چھوڑ چلے ہیں
اس جنتِ طیبہ کا مزا چھوڑ چلے ہیں
کس شوق سے آئے تھے مدینے کے مسافر
روتے ہوئے طیبہ کی فضا چھوڑ چلے ہیں
کب جھیل سکے گا یہ مدینے کی جدائی
دل اب ِترے در پر ہی پڑا چھوڑ چلے ہیں
مشکل ہے، جلیل ! ان کے درِ پاک سے جانا
پھر لوٹ کے آنے کی دعا چھوڑ چلے ہیں
واقعی، یہ واپس لوٹ کے آنے کی آس اور تمنا ہی تو تھی جو ہمیں مدینہ سے استنبول کی فلائیٹ لینے کے قابل بنا رہی تھی۔ بہرحال اداسی کے اسی ماحول میں بورڈنگ کا آغاز ہو گیا۔ اپنی سیٹوں پر آرام سے بیٹھے ہی تھے کہ فضائی مہمانوں نے حکومتِ ترکیہ کی جانب سے ہر مسافر کو قرآنِ مجید کا ایک انتہائی خوبصورت نسخہ تحفہ کے طور پر پیش کیا۔ غم کے ان لمحات میں یہ خوبصورت تحفہ پاکر بلا شبہ ہم بہت خوش ہوگئے۔
کچھ دیر بعد ہی ہماری فلائیٹ نے پہلے مدینہ کی زمینِ اقدس کو چھوڑا اور پھر چند منٹ بعد طیبہ کی پاکیزہ فضاں کو بھی خیرآباد کہہ دیا۔ دل اور آنکھیں دونوں خوب روئے۔ یہی سوچ کر اپنے آپ کو تسلی دیتا رہا کہ اس پاک نگری میں دوبارہ آنے کیلئے، یہاں سے جانا بھی تو لازمی ہے۔ اور پھر اپنے پیارے نبی ۖ سے وہ خاص تعلق بھی تو قائم دائم رہے گا کہ جو پروردگار عالم نے اپنے اس حکم کے ذریعے استوار کر دیا ہے۔
اِن اللہ و ملئِکتہ یصلون علی النبِیِ یایہا الذِین امنوا صلوا علیہِ و سلِموا تسلِیما ۔ احزاب
بیشک اللہ اور ا س کے (سب) فرشتے نبیِ اکرم پر درود بھیجتے رہتے ہیں، اے ایمان والو! تم (بھی) ان پر درود بھیجا کرو اور خوب سلام بھیجا کرو۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here