آج جب یہ کالم لکھنے بیٹھا ہوں تو یہ خیال مجھے گھیرے ہوئے ہے کہ انسان اپنی چند روزہ فانی زندگی کے علم و احساس کے باوجود اس تگ و دو میں ہی رہتا ہے کہ وہ اپنی خواہشات کی تکمیل کیلئے کسی بھی موقع اور دقیقہ سے فروگذاشت نہ کرے اور اپنی دائمی حیات کیلئے کچھ نہیں کرتا۔ دنیا میں ایسے بھی لوگ آئے جنہوں نے اپنی حیات کو بندگان خدا کیلئے وقف کیا اور اس ناطے سے راہی عدم ہونے کے بعد بھی لوگوں کے دلوں اور یادوں میں زندہ جاوید رہے۔ گزشتہ جمعہ ایسا ہی ایک بندہ ہم سے جُدا ہو گیا جس نے اپنی زندگی کا مشن روتے ہوئے اور غمزدہ لوگوں کو ہنسانا اور مسکراہٹیں بانٹنا رکھا تھا۔ فن مزاح، برجستگی، فنی صلاحیتوں کا بے مثال تاجدار اور کامیڈی کنگ عمر شریف اپنے کروڑوں شیدائیوں کو رُلا کر اپنے خالق حقیقی سے جا ملا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ عمر شریف ایک ایسا فنکار اور انسان تھا جس کے انتقال پر اس کے اہل خاندان، ساتھی فنکار، احباب، عزیز و اقارب ہی نہیں ایسے لوگ بھی دُکھ کی گہرائیوں میں ڈُوبے ہوئے نظر آئے جو نہ کبھی اس سے ملے تھے اور نہ کبھی اسے بالذات دیکھا تھا البتہ اس کی فنکارانہ صلاحیتوں اور اس کے مثالی و مخیرانہ کردار میں جکڑے ہوئے تھے۔ کم عمری سے ہی عملی جدوجہد میں مصروف اداکار، رائٹر، ہدایتکار، پیش کار، پروڈیوسر ہونے کیساتھ عمر شریف نے جتنے کردار نبھائے وہ اپنی جگہ ایک ریکارڈ ہے۔ اورنگی کراچی میں ماں ہسپتال کا قیام اور شوکت خانم کیلئے اس کا عملی کردار اس کے مخیرانہ جذبوں کی زریں مثال ہے۔ عمر جب شکاگو آتا تھا، میری اس سے ملاقات ضرور ہوتی تھی اور اس کی ملنساری، انکسارانہ فطرت اور برجستہ و شگفتہ گفتگو میرے لئے خوشگواری و عمر کیلئے محبت کا خزینہ بڑھانے کا سبب ہوتی تھی۔ اللہ تعالیٰ عمر شریف کو آخرت میں اعلیٰ ترین درجات سے سرفراز فرمائے اور اس کے لواحقین و شائقین کو یہ صدمہ برداشت کرنے کی ہمت عطاء فرمائے۔ آمین ثم آمین۔
حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ اپنے عمل و کردار سے دنیا کیلئے اور بندگان خدا کیلئے بہتری کرتے ہیں،وہ نہ صرف مرکر بھی امر ہو جاتے ہیں بلکہ بُھلائے نہیں جاتے۔ ضروری نہیں کہ مزاح اور مخیرانہ کام کر کے ہی لوگوں کے دل جیتے جائیں بلکہ زندگی کا کوئی بھی شعبہ ہو، کسی بھی طرح کا عمل ہو، نیک نیت اور راست عمل ہمیشہ عزت و مقام کا باعث ہوتا ہے۔ ہمیں تو سبق ہی یہ دیا گیا ہے کہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہوتا ہے اور انسانیت کا اعلیٰ معیار بھی یہی ہے جس کا درس ہر مذہب و دھرم میں دیا گیا ہے۔ اب ذرا عالمی منظر نامے پر نظر ڈالیں تو یہ بات واضح نظر آتی ہے کہ جُوں جُوں ارتقاء کے عمل آگے بڑھ رہے ہیں، معاشروں، ملکوں، افراد اور اقوام میں نیتوں میں کھوٹ، اعمال میں اغراض، مفادات اور دوسروں کو نیچا دکھانے کا رجحان ساری دنیا کو منفی رجحانات اور اعمال سے مسخر کرنے کا مؤجب بن چکا ہے۔ دنیا میں محاذ آرائیوں، معاشی ریشہ دوانیوں اور اپنی سبقت کیلئے جو کار فرمائیاں ہو رہی ہیں وہ کچھ ڈھکی چُھپی نہیں۔ سیاست، معاشرت، معیشت، صحافت (میڈیا) یا نظام حکومت غرض ہر جگہ منافرت و مخالفت اور خود غرضی کا بُھوت سروں پر سوار نظر آتا ہے۔ اپنے ہی وطن پاکستان کے حوالے سے موجودہ حالات کا جائزہ لیں تو نیتوں کا فتور اور اعمال کا کھوٹ ہر طرف نظر آتا ہے۔ ایک دوسرے کی مخالفت، توہین آمیزی برپا ہے، دوسرے کی آنکھ میں تنکا بھی جتایا جاتا ہے اور اپنی آنکھ کا شہتیر نظر نہیں آتا۔
گزشتہ تین روز سے آئی سی آئی جے کی جانب سے جاری کردہ پینڈورا پیپرز دوسرے لفظوں میں پینڈورا نے ملک بھر میں ایک طوفان کھڑا کیا ہوا ہے اور اس طوفان میں جہاں حکومت اور اپوزیشن آپس میں آتش کناں ہیں وہیں اس آگ میں تیل ڈالنے کا کام ہمارا میڈیا کر رہا ہے۔ وکی لیکس، پانامالیکس سے لے کر اس پینڈورا لیکس تک جتنے بھی ایسے معاملات آئے ہیں ان میں دنیا بھر کے لوگوں کے معاملات کی نشاندہی کی جاتی رہی ہے اور ان ممالک و اقوام نے اپنے قوانین، آئینی و مروجہ اصولوں کے مطابق انہیں نپٹایا ہے لیکن وطن عزیز میں ان معاملات کو مخالفین پر کیچڑ اُچھالنے اور اپنے مفادات کیلئے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ پانامہ کے معاملے کو ہی لے لیں 450 پاکستانیوں میں سے صرف اس وقت کے وزیراعظم کا محاسبہ ہوا، باقیوں کے حوالے سے کیا ہوا؟ آج تک کسی کو پتہ نہیں۔ اب یہ پینڈورا کھلا ہے، اس کا بھی ٹائیں ٹائیں فش ہوگا۔
وجہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں نظام انصاف پر اس کی حقیقی روح کے مطابق عمل ہی نہیں ہوتا ہے۔ احتساب کے معاملات ہوں، جرم و سزا کے ایشوز ہوں یا دیگر امور جس کی لاٹھی اس کی بھینس پر عمل ہوتا ہے۔ لگتا ہے کہ پینڈورا کا حال بھی پچھلی لیکس جیسا ہی ہوگا۔ لفظ پینڈورا کا مفہوم سمجھیں تو یہ لفظ یونانی زبان سے مستشرق ہے اور اس کا مطلب دیو مالائی کہانی یا قصہ ہے جو غیر معمولی، ہیجان خیزی، اور سنسنی پر مبنی ہوتا ہے اور بے نتیجہ ہوتا ہے۔ اب پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر نظر ڈالیں تو یہاں ہر روز ہی پینڈورا باکس کھلا ہوتا ہے۔ حکومت اور اپوزیشن کردار ہوتے ہیں اور میڈیا اس کا کہانی کار، کہانی میں نئے نئے در کھولتے ہیں اور ایک پینڈورا ابھی اختتام کو نہیں پہنچتا کہ نیا پینڈورا کُھل جاتا ہے۔ حال ہی کے کچھ پینڈوراز کا جائزہ لے لیں اور ملاحظہ کر لیں کہ حکومت اور سیاست دانوں کے درمیان دیومالائی و بے نتیجہ ڈائیلاگ، ہٹ دھرمی، الزام تراشی، حاصل کچھ نہیں۔ چند مثالیں آپ کو یاد دلا دیتے ہیں۔ NCA، نیب چیئرمین کی تعیناتی، ای وی ایم اور الیکشن کمیشن، ن لیگ کے تین ٹکڑے، ٹی ٹی پی سے مذاکرات کا بیانیہ، محمد زبیر کا اسکینڈل، میاں صاحب کی پاکستان میں ویکسینیشن، امریکہ کے بل اور پاکستان پر بعض پابندیوں کے قصے روز کا معمول ہیں، میڈیا پر زبردست جھگڑے اور نتیجہ مفقود اور بحث اگلے پینڈورا پر اسی صورتحال میں پینڈور اپیپرز پر کسی نتیجے کی توقع قوم سے مذاق ہی ہوگا۔ ہاں کوئی نیا پینڈورا ضرور کھلے گا۔
٭٭٭