دنیا میں آج دو قسم کی عدالتوں میں انٹرنیشنل کورف آف جسٹس اور انٹرنیشنل کریمنل کورٹ پائے جارہے ہیں جہاں ملکوں کے تنازعات قانونی مشورے جات یا پھر انسانی حقوق کی پائمالیوں، نسل کشی، جنگی جرائم پر فیصلے ہوتے ہیں۔ انٹرنیشنل کورف آف جسٹس اور انٹرنیشنل کریمنل کورٹ کے دفاتر ہیگ نیدر لینڈ میں پائے جاتے ہیں آئی سی جے کے 15ججوں پر مشتمل عدالت ہوتی ہے جن کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور سکیورٹی کونسل منتخب کرتی ہے جو اقوام متحدہ کا حصہ ہوتا ہے جس کی زبان عدالت انگلش اور فرانسیسی ہوتی ہے۔ جس کا وجود1920میں لایا گیا تھا۔ جو لیگ آف نیشن کے بعد غیر موثر رہا جس کو دوبارہ جنگ عظیم کے بعد1945میں دوبارہ فعال بنایا گیا ہے جو اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق قبضے کرتی ہے جس کا صدر اور نائب صدر ہوتے ہیں یہاں زیادہ تحریکوں کے درمیان تنازعات، جغرافیائی حد بندیاں، ملکی آزادیوں یا پھر بین الاقوامی قانونی مشورہ جات لیے جاتے ہیں جس میں ثالثی کے فیصلے بھی شامل ہیں جبکہ انٹرنیشنل کریمنل کورٹ کے 18جج صاحبان ہوئے ہیں جن کو ممبر ریاستیں منتخب کرتی ہیں جس کو روھن لا کے مطابق بنایا گیا ہے یہاں جنگی جرائم انسانی کشی انسانیت کے خلاف جرائم وغیرہ پر مقدمات کے فیصلے ہوتے ہیں جس کے امریکہ، بھارت اور اسرائیل ممبر نہیں ہے زیادہ تر عدالتی فیصلوں کا دائر کار افریقہ رہا ہے جس کا بھی چیف جسٹس کی بجائے عدالت کا صدر ہوتا ہے یہی وجوہات میں کہ وہ ممالک جو انسانیت پر قہر بن چکے ہیں۔ وہ انٹرنیشنل کریمنل کورٹ کے ممبر نہیں ہیں جس میں امریکہ کئی ملین انسانوں کو موت کی گھاٹ اتار چکا ہے۔ اسرائیل لاکھوں فلسطینیوں کا قاتل بن چکا ہے۔ یہاں گزشتہ چھ ماہ میں ہزاروں بچے، بوڑھے اور خواتین مار دی گئی ہیں جس کا کوئی پوچھنے والا نہیں ہے ایسی طرح بھارت میں مذہب کے نام پر غیر ہندو مذہب کے لوگوں پر ظلم وستم جاری رکھے ہوئے ہے۔ جس کا تیسری مرتبہ نامزد وزیراعظم نریندر مودی ہٹلر ثانی بن کر چکا ہے۔ جو سرکاری اور غیر سرکاری کے طور پر اقلیتوں پر ظلم وستم ڈھا رہا ہے۔ جس کے سامنے دنیا کی کوئی عدالت بے بس نظر آتی ہے اگر امریکہ اسرائیل، بھارت انٹرنیشنل کریمنل کورٹ کے ممبر ہوئے تو ان سے پوچھ گچھ ہوتی تو کروڑوں انسان موت اور ظلم وستم سے بچ جاتے۔تاہم انٹرنیشنل کریمنل کورٹ نے 20مئی2024کو اسرائیلی وزیراعظم نتھن یاہو کے خلاف انسانوں کے قتل عام پر وارنٹ گرفتاری جاری کردیئے ہیں۔ جس کی امریکہ نے کھل کر مخالفت کی ہے جو آج اسرائیل کی دوسری ریاست بن چکا ہے۔ جو اب تک اسرائیل کو 300بلین ڈالر دے چکا ہے جس میں حال ہی میں26بلین ڈالر امداد ہے جو امریکی عوام کی خون پیسنہ کی کمائی ہے جس کا امریکی عوام کو علم تک نہیں ہے کہ امریکی کانگریس اور انتظامیہ امریکی عوام کی کمائی کو کس طرح وقت کے ہٹلروں اور فرعونوں پر خرچ کر رہی ہے۔ جو روزانہ انسانوں کو مار رہے ہیں جس کے سامنے انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس اور انٹرنیشنل کریمنل کورٹ بے بس اور بے اختیار نظر آرہے ہیں۔ جو شاید پھر کسی تیسری جنگ عظیم کی طرف دھکیل رہی ہیں جس میں دنیا بھر کا اربوں انسان مارا جائے گا۔ بہرحال آج دونوں بین الاقوامی عدالتوں پر فرض لاگو ہوچکا ہے۔ کہ وہ دنیا بھر کے متاثرہ اور مظلوم عوام کی حمایت میں بڑے بڑے فیصلے دیں تاکہ دنیا کی بے قابو طاقتیں انسانوں پر اپنے ظلم وستم، جبروتشدد کو بند کریں جس میں انسانیت خطرے میں پڑ چکی ہے۔ جس کی وجہ سے دنیا بھر میں بے چینی اور کشیدگی پائی جارہی ہے۔ جس کا اعادہ قانون اور قانون کے محافظ کی تشریح اور قانون نافذ کرنے والے کرسکتے ہیں۔ بشرطیکہ عدالتوں کے فیصلوں کو تسلیم کیا جائے۔
٭٭٭