خوشبوئے خیال: آئین جمال!!!

0
45
ڈاکٹر مقصود جعفری
ڈاکٹر مقصود جعفری

ثمرین ندیم ثمر ایک نخلِ ثمر بار اور غنچ نو بہار ہیں۔ ان کا تعلق اس نوجوان نسل سے ہے جو اردو ادب میں نئی پرکیف و فکر انگیز و دلآویز شاعری کر رہی ہیں۔ آپ کا تعلق کراچی سے ہے اور آج کل دوحہ /قطر میں مقیم ہیں۔ آپ نے آج مجھے واٹس ایپ پر اپنی شعری تصنیف خوشبوئے خیال بھیجی اور لکھا: میں آپ کی شاعری بہت شوق سے پڑھتی ہوں،من صنم کہ من دانم۔ جب بات ذوق و شوق تک آ پہنچی تو دل کا تقاضا تھا کہ میں بھی ان کی شاعری کو سرسری طور پر نہیں بلکہ شوق سے پڑھتا۔ یہ ادبی فرض بھی تھا اور اخلاقی قرض بھی۔ دل نے گواہی دی کہ ان کی شاعری پر اختصار کے ساتھ اظہارِ خیال کروںکیونکہ محترمہ کی کتاب خوشبوئے خیال کا تقاضا ہے کہ ان کے پیغامِ محبت کو عام کیا جائے۔ میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے،اِس نفرت و حقارت، بغض و عداوت، کشت و کشتار، فتنہ و فساد، جنگ و جدال اور دغہ و دغل کے دورِ ناسپاس میں خوشبوئے محبت پھیلانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔
ثمر ین ندیم ثمر بنیادی طور پر غزل کی شاعرہ ہیں۔ انہوں نے نظمیں، حمد، نعت اور قطعات بھی لکھے ہیں مگر ان کا وجدان غزل میں دو آتشہ نظر آتا ہے۔ ان کی غزلوں کا رنگ اور آہنگ سادہ و سلیس ہے۔ ان کی شاعری سہلِ ممتنع کی آئینہ دار ہے۔ ان کی شاعری میں موسیقیت اور غنائیت ایسے ہی جلوہ افروز ہے جیسے فارسی شاعری میں امیر خسرو اور اردو شاعری میں فیض احمد فیض کی زبان خوشبو سے معطر اور سلاست و بلاغت سے معنبر ہے۔ جذب محبت اِن کی شاعری کا محور و مرکز ہے۔ گویا آپ شاعر محبت ہیں -محبت زندگی کی اساس اور شاعری کی بنیاد ہے۔ حافظ شیرازی نے کہاتھا!
خلل پذیر بود ہر بناکہ می بینی
بجز بنائے محبت کہ خالی از خلل است
ثمرین ثمر کہتی ہیں!
محبت میں جو تم یہ جراتوں کی بات کرتے ہو
مری سانسوں کو تم یوں وصل کی سوغات کرتے ہو
ثمرین ثمر پیدائشی شاعرہ ہیں۔ شاعری خداداد صلاحیت ہے یا کوئی شاعر ہوتا ہے یا نہیں ہوتا۔ شاعر بنائے نہیں جاتے ۔ شاعر بنے بنائے آتے ہیں۔ شاعر اور متشاعر دو اضدادی وجود ہیں۔ثمرین ثمر کی شاعری میں آتشِ دروں ہے۔ خلوص کی فراوانی اور سرشکِ خونیں کی روانی ہے۔ یہ آہِ سوزناک کی شررباریاں اور دلِ سوختہ کی گریہ زاریاں ہیں۔ یہ مقام بڑی عرق ریزی اور ریاضت کے بعد حاصل ہوتا ہے۔ بقول الطاف حسین حالی!
اِک عمر چاہئیے کہ گوارا ہو نیشِ عشق
رکھی ہے آج لذتِ زخمِ جگر کہاں
آج دنیا گلوبل ولیج بن چکی ہے۔ تیسری دنیا کے لوگ بہ امرِ مجبوری وطنِ عزیز کو خیر باد کہہ کر دیارِغیر میں سکونت پذیر ہیں۔ یہ ایک معاشی، سماجی اور انسانی المیہ ہے۔ ثمرین ثمر بھی وطن سے دوری کے غم کو شدت سے محسوس کرتی ہیں اور اِس دکھ کا اظہار شعروں میں جابجا کرتی ہیں۔ آپ کی شاعری نسائیت کی آئینہ دار ہے۔ آپ نے نسوانی جذبات کی عکاسی بڑی شائستگی سے کی ہے۔ مشرقی اقدار و آداب کی پاسداری کی ہے۔ سفلی اور سوقیانہ خرافات سے اجتناب اور سچی محبت کے خواب آپ کی شاعری کا اثاثہ ہیں۔ اِسی لیے کتاب کا عنوان خوشبوئے محبت ہے۔یہی وہ خواب ہیں جو رجائیت کے ضامن ہیں۔ یہ شاعری قنوطیت سے دور اور شبِ تیرہ و تاریک میں چراغ طور اور بقع نور ہے۔ مرزا غالب نے خوب کہا تھا ہیں خواب میں ہنوز جو جاگے ہیں خواب میں- خواب کی یہ ابدی اور سرمدی کیفیت سے عشاقِ صادق ہی آشنا ہوتے ہیں۔ یہ خواب ذاتی اور رومانوی بھی ہو سکتے ہیں اور آفاقی و انسانی بھی۔
ان کے یہ شعر جو ان کی شاعری میں بانگِ درا اور جرسِ کارواں کے غماز ہیں سنیے اور سر دھنیے
جو لوگ روح میں اترے ہوں روشنی کی طرح
وہ ساتھ ہوں تو مقدر سنورنے لگتے ہیں
اپنے آدرشوں اور خوابوں کو وصالِ دوست کا عطیہ اور تحفہ گردانتے ہوئے کہتی ہیں
مجھ میں تتلی بھرے سو رنگ بکھر جاتے ہیں
تیرے آنے سے مرے خواب سنور جاتے ہیں
مجھے یہ احساس ہے کہ ابھی ثمرین ثمر نے شاعری کی کئی منازل کو طے کرنا ہے کہ عشق آساں نمود اول ولے افتاد مشکلھا-
ثمرین ثمر کا نقشِ اول لاثانی ہے اور امید ہے کہ ان کی شاعری کا نقشِ ثانی نقشِ اول سے بہتر ہو گا۔ این دعا از من و از جملہ جہان آمین باد
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here