آپ نے اکثر اخبار میں یہ لکھا ہوگا کے فلاں صاحب سماجی کارکن ہیں یا کہتے سنا ہوگا کے میں ایک سماجی کارکن ہوں۔یعنی سوشل ورکر یہاں تو سوشل ورکر کا باقاعدہ ایک شعبہ ہے لوگ بہت شوق سے سوشل ورک میں بیچلر اور ماسٹر کرتے ہیں اور پھر جاب کرکے اپنا شوق بھی پورا کرتے ہیں اور پیسے بھی کماتے ہیں۔اسی شوق میں ملک سے باہر بھی چلے جاتے ہیں اور دنیا بھر کے غریبوں اور ضرورت مندوں کی مدد کرتے ہیں۔لیکن ہم لوگوں کو نہ تو اس شعبے میں بیچلر اور ماسٹر کی ضرورت ہے نہ کسی اور ملک میں جانے کی ضرورت ہے۔بچپن سے ہی اتنی ذمہ داریاں ڈال دی جاتی ہیں کے سب کی مدد کرنے اور سب کا خیال کرنے کی عادت پڑ جاتی ہے۔گھر میں والدین کے علاوہ نانا، نانی، دادا، دادی، پھوپھی ،خالہ اور ان کا خاندان سب سے ہی اتنے قریب ہوتے ہیں کے ہر وقت مدد کی ضرورت پڑتی رہتی ہے۔یوں بچوں کو بچپن سے ہی سب کی مدد کرنے کی عادت پڑ جاتی ہے پڑوسی بھی بیمار ہوں تو ان کا خیال گھر کے لڑکے لڑکیوں سے کروایا جاتا ہے۔کبھی بہن کی فکر تو کبھی بہنوئی کا خیال کبھی بھانجا بھانجی کی فکر یہ سب باتیں اتنا مضبوط کر دیتی ہیں کے اچھا خاصا عام سا بندہ سوشل ورکر بن کر رہ جاتا ہے۔وہی لوگ جو وہاں سب کی مدد کرنے کے عادی تھے۔خاندان بھر کا خیال کرتے تھے یہاں بھی کسی سے پیچھے نہیں رہے پورے خاندان کا خیال رکھا اب بھی رکھتے ہیں بلکہ اتنے مواقع ملے ہیں کے خاندان بھر کی زندگی بدل کر رکھ دی مگر یہ لوگ خاموش سوشل ورکر یا سماجی کارکن ہیں۔اور اللہ انہیں اجر بھی دے گا۔مگر ایسے لوگ جو کہتے ہیں کے میں ایک سماجی کارکن ہوں اور ان کی زندگی محض سماج کے لیے ہی وقف ہوتی ہے۔جی ہاں اگرکوئی ایسا شخص آپ سے ٹکرائے جو یہ کہے کے میں ایک سماجی کارکن ہوں تو آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کے اس کے اپنے گھر والے اس کے لیے اس کے وقت کے لیے ترس رہے ہوں گے وہ سماج میں اتنا مشغول ہوگا کے اس کے پاس ٹائم ہی نہیں ہوگا کے وہ گھر والوں کو وقت دے سکے وہ کسی کے پاس ہسپتال میں کئی گھنٹے گزارے گا کے اس کا نام اخبار میں آجائے کہ وہ غریبوں کے لیے ہسپتال میں کئی گھنٹے گزار سکتا ہے۔مگر اس کی اپنی نانی دادی یا کوئی اور رشتہ دار اگر ہسپتال میں پڑا ہوگا تو وہ نہیں جاسکے گا کے اس کے پاس وقت ہی کہاں ہے اسے گمنام رشتے دار کیا دیں گے ان کے پاس جانے سے نہ تو نام ہوگا نہ وہ سماجی کارکن کہلائے گا۔لالچی بچے گھر میں انتظار کرکے سو چکے ہوں گے بیوی دوستوں سے نون پر باتیں کرکے تھک چکی ہوگی مگر سماجی کارکن کہیں نہ کہیں جلسے جلوس یا کسی اور کام کی مدد کرنے میں مصروف ہوگا۔میں نے ایسے سماجی کارکن بھی دیکھے ہیں جن کے غریب رشتہ دار نہیں دعوت دیتے ہیں ان کے انتظار میں رہتے ہیں مگر وہ نظر نہیں آتے کے وہ کسی اور غریب کی سیوا کرنے میں لگے ہوتے ہیں۔ان کے دل تو اچھے ہوتے ہیں سب کی مدد کرنے کا جذبہ بھی ہوتا ہے۔ساتھ ہی شہرت حاصل کرنے کا دل بھی چاہتا ہے کوئی بات نہیں انسان ہی تو ہے شہرت اور عزت کی خواہش اگر ہے تو اعتدال میں رہ کر بھی کام کیا جاسکتا ہے۔سماج تو لوگوں سے بھرا ہوا ہے اسے جتنا وقت دو کم ہے مگر وقت کو بانٹ کر ہی چلنا پڑتا ہے۔جو سماج کا وقت ہے وہ سماج کے لیے ہے جو اپنوں کا وقت ہے وہ اپنوں سے لے کر کسی اور کو دینا اپنوں سے زیادتی ہے۔اور اپنے سے بھی زیادتی ہے۔کے آپ کے بچے آپ کی بیوی اور آپ کے خونی رشتے سوشل اشوز تو ان کے بھی ہیں انہیں کون حل کریگا۔اور اگر آپ ان کو دل نہیں کرسکتے تو آپ کو سماجی کارکن بننے کا کیا حق ہے۔اور یہ کہلوانے کا کیا حق ہے کے میں ایک سماجی کارکن ہوں ہم جوش اور جذبے شہرت کے حصول اور اخبارات میں اپنے نام کے اتنے عادی ہوجاتے ہیں کے اپنوں کا حق بھول جاتے ہیں۔اس لیے میں اپنے اپنے محبت کرنے والے پر خلوص سماجی کارکنوں سے کہوں گی کے اپنا گھر بھی دیکھیں وہاں کوئی آپ کی ضرورت بہت زیادہ تو نہیں محسوس کردیا۔
٭٭٭