پاکستانی ڈراموں کا معیار روبہ زوال ہے!!!

0
85
حیدر علی
حیدر علی

میرے تو خواب و خیال تک میں نہ تھا کہ میری تین ہفتے کی غیر حاضری بوجہ پی ایس ایل – 7 کے دوران پاکستان کے ٹی وی پر چلنے والے ڈرامے یوں کے توں رہیں گے ، اور کون سا مکالمہ جو مجھے بے ضررمعلوم ہوتا تھا اُسی کی دو بارہ مجھے زہر ماری کرنا پڑیگی، مکالمہ جو کسی کے احسان مند ہونے کے بجائے اُس کے نیک فعال پر اُسے للکارنا یا سرزنش کرنا ، حقیقی معنوں میں پاکستانی ڈراموں کا طرہ امتیاز ہے، اِس طرح کے بھونڈے کردار سے ڈرامہ نویسوں کی ذہنیت کا پتا چل جاتا ہے۔ میں تو ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر ایک گھنٹہ ڈرامہ دیکھنے کیلئے صرف کرنا چاہتا ہوں لیکن معاف کیجئے گا اُس ایک گھنٹے کے40 منٹ کو تو میرے سر پہ ڈرامہ کے بجائے کمرشل کے ناختم ہونے والے سلسلے کو تھونپ دیا جاتا ہے، باقیماندہ 20 کے 10 منٹ اسلام و علیکم، آپ کیسے ہیں؟ میں خیریت سے ہوں میں ختم ہوجاتے ہیں، اور ناظرین اپنا منھ کھولے دیکھتے ہی رہ جاتے ہیں،امریکا میں تو کمرشل میں ائیر لائنز ، ٹویوٹا کیمری یا نہیں تو چیروکی جیپ کی 4 ہزار فٹ کی بلندی پر پرواز کرتے ہوے مناظر کو دیکھ کر انسان کی چاروں آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جاتی ہیں لیکن پاکستان کے کمرشل میں چائے گرم اور کیک کا اشتہار دیکھ کر بس سمجھ لیجئے متلی آنے لگتی ہے.کیک کا اشتہار یوں ہوتا ہے جیسے جیو کے مالک میر شکیل الرحمن کی بیکری کا بنا ہوا ہو اور جس کا موازنہ امریکا میں چلنے والے مرسڈیز گاڑی کے کمرشل سے باآسانی کیا جاسکتا ہے، مرسڈیز گاڑی کے ڈیلرز تو بھاری رقمیں ادا کرتے ہیں تقریبا” 50 ہزار ڈالر . لیکن پاکستان کے کیک بنانے والے صرف کیک کھلا کر ٹر خا دیتے ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے پاکستان کے ٹی وی چینلز پر نئی گاڑیوں کے کمرشل کیوں نہیں آتے؟ پاکستان میں بھی تو لوگوں کے پاس گاڑیاں ہیںبلکہ پاکستانی نژاد امریکیوں کو تو وہ ہمیشہ یہی سناتے رہتے ہیں کہ اُن کے پاس تین گاڑیاں ہیں، مطلب واضح ہے کہ لوگوں کے پاس جو تین گاڑیاں ہیں اُن میں ایک سال 1947 ء دوسری 1958 ء اور تیسری 1971 ء کی ہوتی ہوگی ، ورنہ نئی گاڑیوں کا اشتہار ضرورا”ٹی وی پر آنا چاہیے تھا.فی الوقت پاکستان کے ناظرین کو جو کمرشل دیکھنے کو ملتے ہیں اُن میں کیک ،گرم چائے ، شان مسالہ ، کھٹمل مارنے کی دوائیں اور متفرقات لیکن جلد ہی وہ آلو ، گوبی ،ٹماٹر اور بیگن کے اشتہارات سے بھی محفوظ ہوں گے، جس میں کوئی سبزی والا اُن سے یہ کہہ کر مخاطب ہوگا کہ ” یہ نہ بھولئے کہ ہماری سبزی کا ٹھیلہ ٹھیک لالو کھیت 10 نمبر کے کونے پر واقع ہے ، جہاں آپ کو تمام تازی سبزیاں دستیاب ہیں. جو لوگ صرف سبزی کھاتے ہیں اُنہیں دس فیصد کی رعایت ملے گی۔ایک ڈرامہ میں دوسرے ڈرامہ کا اشتہار یہ بھی ایک مضحکہ خیز سلسلہ ہے اگر وہ اشتہار ایک منٹ کا ہو تو قابل برداشت ہے، لیکن میں تو اُسی قسم کے ایک اشتہار کو دیکھ کر یہ سمجھ لیا تھا کہ یہ کوئی نیا ڈرامہ ہے، لیکن پانچ منٹ بعد پتا چلا کہ یہ کسی دوسرے ڈرامہ کا اشتہار تھا. اِس سے بہتر تو یہ تھا وہ چینل والے ڈھولک اور باجا لے کر محلے محلے اُس ڈرامہ کی تشہیر کیا کرتے جیسے کہ گذرے وقت میں نئی فلموں کی کی جاتی تھی۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان میں اچھے کہانی نویس اور ڈرامہ کے اداکاراؤں کی شدید حد تک کمی ہے، یہی وجہ ہے کہ ہر ڈرامہ میں وہی چہرہ نظر آتا ہے، ایک ڈرامہ میں کوئی اداکار کسی پروفیسر کا رول ادا کرتے ہوے نظر آتا ہے تو ٹھیک اُس کے بعد شروع ہونے والے ڈرامہ میں وہی اداکار ڈاکو کے روپ میں نظر آتا ہے. میں تو یہی سمجھتا رہا کہ پہلے والے ڈرامہ کا سلسلہ جاری ہے، اِس کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے۔ اداکاراؤں کو ایکمشت معاوضہ دینے کے بجائے مہینے کی دیہاڑی دی جاتیں ہیں، اور ہر اداکار سے روزانہ آٹھ گھنٹے کام لیا جاتا ہے. ایک ڈرامہ کی شوٹنگ ختم ہوتی ہے تو اُس کے فورا”بعد اداکار یا اداکارہ کو یہ کہا کاتا ہے کہ اچھا اب تم ماسی یا خانساماں بننے کی تیاری کر لو.کہانی کے تسلسل سے بھی یہ پتا چلتا ہے کہ ڈرامہ کی کہانی نہ ہی کسی کی تخلیق سے اخذ کی گئی ہے اور نہ ہی کسی تخلیق کی ترجمان ہے، بلکہ روزانہ کی بنیاد پر چند افراد بیٹھ کر کہانی کو آگے بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں، اِس وجہ کر ڈرامہ تسلسل سے غیر تسلسل ہو جاتا ہے۔ پاکستانی ڈراموں کی کامیابی کی بنیاد ہی خوبصورت چہروں کی پیشکش پر ہوگئی ہے، ہر چینل خوبصورت سے خوبصورت اداکاراؤں کو پیش کرنے کی ریس لگا ررکھا ہے، آیا خوبصورت چہرہ مکالمے کی درست ادائیگی کر سکتا ہے یا نہیں، آیا اُس کے چہرے پر مسکراہٹ بکھرتی ہے یا نہیں یا صرف وہ کاٹ کے الّو کی طرح کھڑا رہتا ہے بعض اداکار تو کیمرے کے سامنے صرف یس اور نو ہی بول سکتے ہیںاور ایسے معلوم ہوتے ہیں جیسے وہ انسان نہیں مجسمہ ہوں۔ بھارتی ڈراموں کا کوئی معیار ہو یا نہ ہو لیکن اب ہم بھی یہ دعوی نہیں کر سکتے کہ پاکستانی ڈراموں کا تقابل دنیا کے دوسرے ملک سے کیا جاسکتا ہے کیونکہ اب نہ شوکت صدیقی باحیات رہے اور نہ ہی اُن کی خدا کی بستی کا کو ئی بدل پاکستان کی ٹی وی کے پردہ سیمیں پر جلوہ افروز ہوا یہی وجہ ہے کہ ڈرامہ کی ایک ہی قسط کوپانچ پانچ مرتبہ پیش کیا جانا پاکستانی ٹی وی چینلز کا معمول بن گیا ہے،تعجب کی یہ بات ہے کہ اِن تمام خامیوں کے باوجود تمام چینلز کے مالکان ناظرین سے یہ توقع کرتے ہیں کہ وہ دِن بھر اُن کا ڈرامہ دیکھتے رہیں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here